بھارت پر مزید 25 فیصد ٹیرف عائد: نئی دہلی نے فیصلہ غیر منصفانہ قرار دے دیا

0 minutes, 0 seconds Read

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت پر مزید 25 فیصد ٹیرف عائد کردیا ہے، جس کے بعد اب بھارت پر مجموعی امریکی ٹیرف 50 فیصد ہوگیا ہے۔ یہ ٹیرف دیگر ڈیوٹی، فیس اور ٹیکسوں کے علاوہ ہوگا۔ نئی دہلی نے اس فیصلے کو غیر منصفانہ قرار دے دیا۔

غیر ملکی خبررساں ایجنسی کے مطابق وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر ٹرمپ نے ایگزیکٹو آرڈر کے تحت بھارت پر مزید 25 فیصد ٹیرف عائد کیا ہے۔

وائٹ ہاؤس کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ بھارت سے درآمد کی جانے والی اشیا پر اضافی ڈیوٹی عائد کرنا مناسب اور ضروری ہے، بھارت روس سے بلاواسطہ اور بالواسطہ تیل درآمد کررہا ہے۔

امریکا-بھارت تجارتی مذاکرات: معاہدہ کی ناکامی کی وجہ کیا بنی؟

ایگزیکٹو آرڈر میں مزید کہا گیا ہے کہ بھارت سے امریکہ میں درآمد ہونے والی تمام اشیاء پر 25 فیصد اضافی محصولات عائد کی جائیں گی۔

گزشتہ روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت پر آئندہ 24 گھنٹوں میں مزید ٹیرف لگانے کا اعلان کیا تھا، امریکی صدر نے اپنے پیغام میں کہا تھا کہ بھارت کے موجودہ 25 فیصد ٹیرف میں اضافہ کیا جائے گا۔

اضافی ٹیرف عائد کرنے پر بھارت کا سخت ردعمل

بھارت نے امریکا کی جانب سے روس سے تیل کی درآمدات پر اضافی 25 فیصد ٹیرف عائد کرنے کے فیصلے پر شدید اعتراض اٹھایا ہے۔ بھارتی حکام نے اس اقدام کو غیرمنصفانہ اور غیر معقول قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت کی تیل کی درآمدات مارکیٹ کے عوامل پر مبنی ہیں اور اس کا مقصد ملک کی 1.4 ارب افراد کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنا ہے۔

بھارتی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ یہ انتہائی افسوسناک ہے کہ امریکا نے بھارت کے خلاف اضافی ٹیرف عائد کیا ہے، حالانکہ کئی دیگر ممالک بھی اپنے قومی مفادات کے تحت ایسے اقدامات کر رہے ہیں۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ بھارت اپنے قومی مفادات کی حفاظت کے لیے ہر ممکن اقدام کرے گا۔ یہ کارروائیاں نہ صرف غیر منصفانہ ہیں بلکہ کسی بھی لحاظ سے جائز نہیں ہیں۔ بھارتی حکام نے اس بات پر زور دیا کہ امریکہ کے فیصلے سے بھارت کے تجارتی تعلقات پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں اور بھارت عالمی سطح پر اپنے مفادات کے دفاع کے لیے اقدامات جاری رکھے گا۔

واضح رہے کہ 30 جولائی کو امریکی صدر نے باضابطہ طور پر بھارت پر 25 فیصد ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کیا تھا اور ساتھ ہی روس سے مسلسل فوجی ساز و سامان اور تیل کی خریداری پر بھارت پر جرمانہ بھی عائد کیا تھا۔

اس پر بھارت کی جانب سے وزارت خارجہ نے سخت ردِ عمل دیتے ہوئے بیان جاری کیا تھا جس میں کہا گیا کہ امریکا اور یورپی یونین نے 2022 میں روس کے یوکرین پر حملے کے بعد بھارت کو روسی تیل خریدنے کا ہدف دیا تھا تاکہ عالمی توانائی مارکیٹ میں استحکام قائم رکھا جاسکے۔

بھارت نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ امریکہ خود بھی روس سے مختلف اشیاء درآمد کرتا ہے، اس لیے بھارت پر تنقید غیر منصفانہ ہے۔ بھارتی وزارت خارجہ کے مطابق امریکہ آج بھی روس سے جوہری صنعت کے لیے یورینیم ہیگزا فلورائیڈ، الیکٹرک گاڑیوں کے لیے پیلڈیم، کھاد اور دیگر کیمیکل درآمد کر رہا ہے۔

بھارتی حکام کا کہنا تھا کہ ہماری توانائی کی ضروریات، معیشت اور صارفین کے مفادات کی بنیاد پر فیصلے ہوتے ہیں، نہ کہ بیرونی دباؤ پر، بھارت کا مؤقف بالکل واضح ہے۔

Similar Posts