پاکستان میں گزشتہ برس کم از کم 405 خواتین کو نام نہاد ”غیرت“ کے نام پر قتل کیا گیا، جن میں بلوچستان کے علاقے ڈیگاری میں بانو بی بی کا قتل بھی شامل ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کی رپورٹ کے مطابق ان واقعات کا دائرہ صرف دیہی یا غریب علاقوں تک محدود نہیں بلکہ بڑے شہروں اور بیرونِ ملک مقیم پاکستانی برادریوں تک پھیلا ہوا ہے۔
ایچ آر سی پی کی ڈائریکٹر فرح ضیاء امریکی اخبار ”نیویارک ٹائمز“ سے گفتگو میں کہا کہ، اگرچہ 2016 میں ایک قانون منظور کیا گیا تھا جس کے تحت متاثرہ خاندان کو قاتل کو معاف کرنے کا اختیار ختم کر دیا گیا، مگر اس کے باوجود ان واقعات کی تعداد میں کمی آنے کے بجائے اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پولیس سے حاصل کردہ اعداد و شمار کے مطابق 405 کیسز رپورٹ ہوئے، مگر اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ بہت سے واقعات رپورٹ ہی نہیں کیے جاتے۔
ڈیگاری قتل کیس پر امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے ایک تفصیلی آرٹیکل شائع کیا ہے جس میں پاکستان میں جاری ان غیر انسانی وارداتوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، کوئٹہ کے نواح میں بانو بی بی اور ان کے ساتھ احسان اللہ سملانی کو مبینہ طور پر غیرت کے نام پر قتل کیا گیا۔
اس واقعے پر عوامی غصہ اس لیے سامنے نہیں آیا کہ یہ ایک اور نام نہاد غیرت کے نام پر قتل تھا، بلکہ اس لیے کہ حکام نے کارروائی اُس وقت کی جب فائرنگ کی ویڈیو وائرل ہوئی، اور وہ بھی چھ ہفتے سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد۔
بانو بی بی اور سملانی کے قتل میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کے مطالبے کی قرارداد پیش کرنے والی سینیٹر شیری رحمان کا کہنا ہے کہ ’بہت سی برادریاں اور خاندان اس گمراہ کن تصور پر اصرار کرتے ہیں کہ اُن کی ”غیرت“ عورت کے جسم اور اُس کے اعمال سے جڑی ہوئی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ایسے جرائم میں سزا کی انتہائی کم شرح ان مجرموں کو مزید دلیر بناتی ہے۔ ’اسی لیے عورت کے اعمال اور حقوق پر کنٹرول کا تصور معاشرے کے ہر طبقے میں ایسے ظالمانہ رواجوں کو زندہ رکھنے کے لیے ہم خیال افراد پیدا کرتا ہے۔‘
نیویارک ٹائمز کے مطابق رواں سال جنوری میں ایک اور لرزہ خیز واقعہ سامنے آیا جب نیویارک میں مقیم ایک پاکستانی شخص نے اپنی 14 سالہ بیٹی کو پاکستان بلا کر صرف اس لیے قتل کر دیا کہ وہ اس کے طرزِ زندگی اور لباس سے ناخوش تھا۔
اس 24 کروڑ سے زائد آبادی والے مسلم ملک میں سیاستدان اور قانون نافذ کرنے والے ادارے طویل عرصے سے خواتین کے تحفظ کے بلند و بانگ دعوے کرتے آئے ہیں۔ وہ بارہا یہ وعدے بھی دہرا چکے ہیں کہ صدیوں پرانے رواجوں کے نام پر ہونے والے ان قتل جیسے واقعات کے مجرموں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔
لیکن انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ ملک میں خواتین کے خلاف تشدد سے متعلق کئی قوانین موجود ہونے کے باوجود ان پر عملدرآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ بیشتر دیہی علاقوں میں آج بھی قبائلی جرگے عدالتی نظام پر حاوی ہیں اور ان فیصلوں میں اکثر عورتوں کو غیرت کے نام پر نشانہ بنایا جاتا ہے۔
سسٹین ایبل سوشیئل ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن (ایس ایس ڈی او) کے مطابق گزشتہ سال رپورٹ ہونے والے تمام غیرت کے نام پر قتل کے واقعات میں سے صرف 0.5 فیصد کیسز میں مجرموں کو سزا سنائی گئی۔ اکثر اوقات قاتل قریبی رشتہ دار ہوتے ہیں، جیسے والد، بھائی یا چچا، جو بیٹی یا بہن کے انکار، طلاق لینے یا کسی محبت کے رشتے کو ثقافتی اقدار کے منافی سمجھ کر قتل کر دیتے ہیں۔
ہیومن رائٹس کمیشن اور دیگر اداروں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ان واقعات کو روکنے کے لیے فوری، مؤثر اور نڈر اقدامات کیے جائیں، اور ایسے قوانین لاگو کیے جائیں جن میں نہ صرف سزا یقینی ہو بلکہ متاثرہ خواتین کو مکمل قانونی و سماجی تحفظ بھی فراہم کیا جا سکے۔