ایران نے خبردار کیا ہے کہ وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے قفقاز میں مجوزہ بین الاقوامی راہداری کو بلاک سکتا ہے، یہ راہداری ٹرمپ کی سرپرستی میں طے پانے والے اس علاقائی معاہدے کا حصہ ہے جو آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان طے پایا ہے۔ ایران کے اس اعلان نے ٹرمپ کے اُس راہداری منصوبے کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے، جسے خطے میں ایک بڑی اسٹریٹجک پیش رفت کے طور پر پیش کیا جا رہا تھا۔
خبر رساں ایجنسی ”رائٹرز“ کے مطابق، ”ٹرمپ روٹ فار انٹرنیشنل پیس اینڈ پراسپرٹی“ (TRIPP) کے تحت جنوبی آرمینیا سے ایک راہداری تعمیر کی جائے گی، جو آذربائیجان کو براہِ راست اس کے علاقے نخچیوان سے جوڑ دے گی اور پھر ترکیہ تک رسائی دے گی۔ امریکا کو اس راہداری کی ترقی اور سرمایہ کاری کے خصوصی حقوق حاصل ہوں گے، اور وائٹ ہاؤس کے مطابق اس سے توانائی اور دیگر وسائل کی برآمدات میں اضافہ ہوگا۔
ٹرمپ-پوتن الاسکا ملاقات: کیا یوکرین کا مستقبل یوکرینی صدر کے بغیر طے کیا جائے گی؟
ایران کا ردعمل اور دھمکی
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے سینئر مشیر علی اکبر ولایتی نے کہا ہے کہ شمال مغربی ایران میں ہونے والی فوجی مشقیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ ایران کسی بھی جغرافیائی تبدیلی کو روکنے کے لیے تیار ہے۔
ان کا کہنا تھا:
”یہ راہداری ٹرمپ کی ملکیت نہیں بنے گی بلکہ ٹرمپ کے کرائے کے فوجیوں کا قبرستان ثابت ہوگی۔“
اگرچہ ایران کی وزارتِ خارجہ نے ابتدائی طور پر اس معاہدے کو ”پائیدار علاقائی امن کی جانب ایک اہم قدم“ قرار دیا تھا، مگر ساتھ ہی خبردار کیا کہ اس کی سرحدوں کے قریب کوئی بھی غیر ملکی مداخلت خطے کے امن و استحکام کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔
رائٹرز کے مطابق، ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران پر امریکی دباؤ، متنازع جوہری پروگرام اور جون میں اسرائیل کے ساتھ 12 روزہ جنگ کے بعد اس کی فوجی طاقت محدود ہو گئی ہے، اور عملی طور پر اس راہداری کو روکنا مشکل ہوگا۔
روس کا ردعمل
روس، جو روایتی طور پر آرمینیا کا اتحادی اور ثالث رہا ہے، اس معاہدے کا حصہ نہیں تھا، حالانکہ اس کے سرحدی محافظ آرمینیا اور ایران کے درمیان تعینات ہیں۔ ماسکو نے کہا ہے کہ بہتر ہوگا اگر خطے کے ممالک خود اپنے ہمسایہ ممالک روس، ایران اور ترکیہ کی مدد سے حل نکالیں، تاکہ مغرب کی ناکام مشرقِ وسطیٰ ثالثی کی ”تلخ مثال“ دوبارہ نہ دہرائی جائے۔
تاریخی پس منظر
آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان تنازع 1980 کی دہائی کے آخر میں شروع ہوا، جب آذربائیجان کا علاقہ نگورنو کاراباخ آرمینیا کی حمایت سے الگ ہو گیا۔ 2023 میں آذربائیجان نے یہ علاقہ واپس حاصل کر لیا، جس کے بعد تقریباً 1 لاکھ نسلی آرمینی باشندے آرمینیا منتقل ہو گئے۔
رکاوٹیں اور خدشات
آذربائیجان کا کہنا ہے کہ امن معاہدہ تبھی ممکن ہے جب آرمینیا اپنے آئین سے نگورنو کاراباخ سے متعلق علاقائی دعویٰ ہٹا دے۔ آرمینیا کے وزیراعظم نیکول پشینیان نے آئینی ترمیم کے لیے ریفرنڈم کا اعلان کیا ہے، مگر تاریخ طے نہیں کی گئی۔
بین الاقوامی تجزیہ کار جوشوا کوسیرا کے مطابق، ٹرمپ کو شاید وہ ”آسان جیت“ نہ مل سکے جس کی امید تھی، کیونکہ ابھی تک یہ واضح نہیں کہ راہداری پر کس طرح کسٹمز اور سیکیورٹی نظام کام کرے گا، اور آرمینیا کو آذربائیجان کی زمین تک کس قسم کی رسائی ملے گی۔ یہ مسائل امن منصوبے کو پٹڑی سے اتار سکتے ہیں۔
صدر آذربائیجان اور وزیراعظم آرمینیا نے بھی ٹرمپ کو ’نوبل انعام‘ دینے کی سفارش کردی
آگے کا منظرنامہ
آذربائیجان کے اعلیٰ سفارت کار ایلن سلیمانوف کا کہنا ہے کہ اگر رکاوٹیں دور ہو جائیں تو یہ منصوبہ پورے خطے کی معیشت اور سفری رابطوں میں انقلاب لا سکتا ہے۔ تاہم، ایران کی کھلی مخالفت اور روس کی محتاط پالیسی اس منصوبے کو پیچیدہ بنا رہی ہیں۔
اگر یہ راہداری بن جاتی ہے تو یہ نہ صرف قفقاز بلکہ مشرقِ وسطیٰ کی اسٹریٹجک صورتحال کو بھی بدل دے گی، مگر اس وقت یہ سوال کھلا ہے کہ آیا یہ ”امن کی شاہراہ“ بنے گی یا نئے تنازع کا میدان۔