مصنوعی ذہانت (اے آئی) کے بڑھتے ہوئے استعمال کے ساتھ جہاں صارفین فوری معلومات کے حصول کے لیے ان پر انحصار کرنے لگے ہیں، وہیں ایسے ٹولز کی درستگی پر سوالات بھی اٹھنے لگے ہیں۔ حال ہی میں ’ایکس‘ (سابقہ ٹوئٹر) پر ایسا ہی ایک واقعہ سامنے آیا جب فرانسیسی رکنِ پارلیمنٹ ایمرک کارون نے غزہ میں غذائی قلت کا شکار ایک بچی کی تصویر شیئر کی۔ لیکن اے آئی ٹول ’گروک‘ کی غلط تشریح نے اس تصویر کو یمن سے جوڑ دیا، جس کے باعث ایک شدید آن لائن تنازع کھڑا ہوگیا۔
عرب خبر رساں ادارے ”العریبیہ“ کے مطابق 3 اگست کو پوسٹ کی گئی تصویر میں نظر آنے والی ایک بچی جو شدید غذائی قلت کا شکار ہے اور اس کی ماں اسے گلے لگائے ہوئے ہے۔ تصویر ایسے وقت میں شیئر کی گئی جب اقوام متحدہ غزہ میں بڑے پیمانے پر قحط کے خطرے سے خبردار کر چکی ہے۔ ایمرک کارون نے تصویر کے ساتھ کوئی وضاحت نہیں دی، مگر صارفین نے اس کی صداقت جانچنے کے لیے گروک ٹول کا سہارا لیا۔
گروک کی گمراہ کن معلومات
گروک نے تصویر کے بارے میں دعویٰ کیا کہ یہ ’18 اکتوبر 2018 کو یمن میں یونیسف کے ایک کلینک میں لی گئی تھی۔‘ ٹول نے نیویارک ٹائمز جیسے ’قابل اعتماد‘ ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ تصویر میں یمن کی بچی امل حسین ہے، اور یہ جنگ سے متاثرہ یمن کی صورتحال کی عکاسی کرتی ہے۔
اس ’فیصلہ کن‘ جواب کے بعد کئی صارفین نے ایمرک کارون پر گمراہ کن مواد پھیلانے کا الزام عائد کیا، اور پوسٹ وائرل ہو گئی، جس پر 10 لاکھ سے زیادہ ویوز آئے۔

حقیقت کیا ہے؟
تاہم، روایتی ریورس امیج سرچ اور میٹا ڈیٹا کے تجزیے سے پتہ چلا کہ گروک کا دعویٰ غلط تھا۔ یہ تصویر دراصل 2 اگست 2025 کو ’غزہ‘ میں اے ایف پی کے فوٹوگرافر ’عمر القطاع‘ نے لی تھی۔ تصویر میں نظر آنے والی بچی کا نام ’مریم دواس‘ ہے، جس کی عمر 9 سال ہے۔ اس کی ماں، ’33 سالہ مدلّلہ دواس‘، نے اے ایف پی کو بتایا کہ جنگ سے پہلے ان کی بیٹی صحت مند تھی، لیکن اب اس کا وزن صرف 9 کلو رہ گیا ہے۔
5 اگست کو دوبارہ رابطے پر، مدلّلہ دواس نے تصدیق کی کہ ان کی بیٹی کی ذہنی اور جسمانی حالت بگڑ چکی ہے اور وہ مسلسل بیماری سے نجات کی دعائیں مانگتی ہے۔
گروک کی بار بار غلطی
گروک نے 4 اگست کو اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے کہا، ’میں نے تصویر کو 2018 میں یمن میں لی گئی ایک اور تصویر سے الجھا دیا۔‘
مگر حیرت انگیز طور پر اگلے ہی دن، 5 اگست کو جب اسی تصویر پر دوبارہ سوال کیا گیا، تو گروک نے دوبارہ وہی پرانا اور غلط دعویٰ دہرایا کہ یہ تصویر یمن کی ہے۔
ماہرین کا انتباہ
ٹیکنالوجی کی اخلاقیات کے ماہر ’لوئس دو دیسباخ‘ نے اس واقعے کو اے آئی ٹولز کی ساختی کمزوریوں کی علامت قرار دیا۔ ان کے مطابق، ’یہ ماڈلز بلیک باکس کی طرح ہیں، ہمیں یہ نہیں معلوم کہ وہ کیسے سوچتے ہیں، اور ان کے جوابات میں تعصب آ سکتا ہے۔ گروک جیسے ٹولز بعض اوقات مخصوص نظریات کی جھلک دکھاتے ہیں۔‘
انہوں نے واضح کیا کہ لسانی ماڈلز کا بنیادی مقصد ’درست جواب دینا‘ نہیں بلکہ زبانی اعتبار سے قائل کن جواب بنانا ہوتا ہے۔ لہٰذا انہیں سچائی کا ذریعہ سمجھنا خطرناک ہو سکتا ہے۔
دیگر اے آئی ٹولز بھی غلطی کے مرتکب
یہ صرف گروک کا مسئلہ نہیں۔ اے ایف پی کی فیکٹ چیکنگ ٹیم نے یہی تصویر ’مسٹرال اے آئی‘ نامی چیٹ بوٹ پر بھی ٹیسٹ کی، جس نے بھی غلطی سے کہا کہ تصویر یمن سے ہے۔ یہی مسئلہ ’ایکس‘ پلیٹ فارم پر دیگر صارفین کو بھی پیش آیا جہاں مختلف اے آئی ماڈلز نے متضاد اور غلط دعوے کیے۔
کیا اے آئی پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے؟
یہ واقعہ تشویشناک ہے اور واضح کرتا ہے کہ ’اے آئی ٹولز کو معلومات کی تصدیق یا تحقیق کے حتمی ذرائع سمجھنا خطرناک ہو سکتا ہے۔‘ ماہرین کا کہنا ہے کہ ان ٹولز کو ’جھوٹ بولنے والا دوست‘ سمجھنا زیادہ درست ہوگا، جو ہمیشہ جھوٹ نہیں بولتا، مگر کسی بھی وقت غلطی کر سکتا ہے۔