یہ جان کر شاید آپ کو حیرت ہو کہ کچھ ترقی یافتہ ممالک میں بھی تعلیمی نظام روایتی یونیورسٹی ماڈل سے مختلف رہا ہے۔
دنیا بھر میں یونیورسٹیوں کو اعلیٰ تعلیم کا بنیادی ذریعہ تصور کیا جاتا ہے، اور اکثر ممالک میں ان کا قیام ایک تعلیمی معیار سمجھا جاتا ہے۔ تاہم، کچھ ممالک ایسے بھی ہیں جنہوں نے مخصوص جغرافیائی، معاشرتی یا مذہبی وجوہات کی بنا پر عمومی ماڈل سے ہٹ کر اپنا تعلیمی ڈھانچہ ترتیب دیا۔ ایسے ہی دو یورپی ممالک ’ویٹیکن سٹی‘ اور ’لکسمبرگ‘ ہیں، جن کے تعلیمی نظام اور یونیورسٹیوں سے متعلق تاریخ ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ ہر ملک اپنی ضروریات اور ترجیحات کے مطابق تعلیمی راستہ اختیار کرتا ہے۔
ویٹیکن سٹی: دنیا کی سب سے چھوٹی اور مذہبی ریاست
ویٹیکن سٹی دنیا کی سب سے چھوٹی خودمختار ریاست ہے، جو روم، اٹلی کے اندر واقع ہے۔ یہ کیتھولک چرچ کا عالمی مرکز ہے اور پوپ کی رہائش گاہ بھی یہی ہے۔ چونکہ اس ریاست کا رقبہ محض 49 ہیکٹر ہے اور آبادی بھی ایک ہزار سے کم ہے، اس لیے یہاں کسی روایتی عوامی یونیورسٹی یا اسکول کے قیام کی گنجائش نہیں۔
ویٹیکن میں تعلیم کا زیادہ تر نظام مذہبی اداروں کے تحت چلتا ہے۔ یہاں کئی ’پونٹیفیکل‘ جامعات جیسے ’Pontifical Gregorian University‘ اور ’Lateran University‘ موجود ہیں، جو کیتھولک چرچ کے زیر انتظام چلتی ہیں۔ ان اداروں میں مذہبی تعلیم دی جاتی ہے اور ان کا دائرہ کار عمومی یا سائنسی تعلیم پر محیط نہیں ہوتا۔ لہٰذا یہاں کے طلباء عمومی تعلیم یا سیکولر اعلیٰ تعلیم کے لیے روم یا اٹلی کے دیگر شہروں کا رخ کرتے ہیں۔
لکسمبرگ: ایک ترقی یافتہ ملک، مگر ایک منفرد تعلیمی ماڈل کے ساتھ
لکسمبرگ ایک چھوٹا مگر خوشحال یورپی ملک ہے جس کی آبادی تقریباً سات لاکھ کے قریب ہے۔ اگرچہ آج یہاں ایک مکمل سرکاری یونیورسٹی موجود ہے، جس کا نام ’یونیورسٹی آف لکسمبرگ‘ ہے اور جو 2003 میں قائم کی گئی تھی، لیکن اس سے قبل اس ملک میں کوئی مکمل اور جامع یونیورسٹی موجود نہیں تھی۔
یونیورسٹی آف لکسمبرگ ایک تحقیق پر مبنی ادارہ ہے، جو متعدد زبانوں میں تعلیم فراہم کرتا ہے اور بین الاقوامی معیار پر کام کر رہا ہے۔ تاہم اس کا دائرہ محدود ہونے کے باعث آج بھی بڑی تعداد میں طلباء اعلیٰ تعلیم کے لیے فرانس، جرمنی یا بیلجیئم جیسے قریبی ممالک کا رخ کرتے ہیں۔
لکسمبرگ کا تعلیمی نظام تین زبانوں پر مشتمل ہے، فرانسیسی، جرمن اور لکسمبرگش۔ یہاں تعلیم کی بنیاد پری اسکول سے شروع ہو کر سیکنڈری اسکول تک پہنچتی ہے، جہاں سے طلباء یا تو تکنیکی شعبے کا انتخاب کرتے ہیں یا پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرون ملک جاتے ہیں۔
ہر ملک کا تعلیمی ماڈل اس کی مخصوص ضروریات سے جڑا ہوتا ہے۔
یہ حقیقت کہ دنیا کے کچھ ممالک میں روایتی یونیورسٹی کا مکمل ڈھانچہ موجود نہیں، اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ تعلیم کا نظام ہر ملک میں اس کی ضروریات، وسائل، ثقافت اور ساخت کے مطابق ترتیب دیا جاتا ہے۔ چھوٹے ممالک، جیسے ویٹیکن سٹی یا ماضی کا لکسمبرگ، اپنی محدود آبادی اور مخصوص کردار کے باعث عمومی ماڈل سے مختلف تعلیمی راستہ اختیار کرتے ہیں۔
یونیورسٹی کی عدم موجودگی لازمی طور پر تعلیمی پسماندگی کی نشانی نہیں ہوتی، بلکہ بعض اوقات علاقائی تعاون، سرحد پار تعلیمی مواقع اور مخصوص تعلیمی ترجیحات اس خلا کو کامیابی سے پُر کر دیتی ہیں۔ یہ ماڈل دنیا کے تعلیمی تنوع کی ایک نمایاں مثال ہے۔