مثال کے طور پر اے آئی دوستانہ پالیسیاں اپنانے، ضروری ٹیکنالوجی پر درآمدی ڈیوٹی میں کمی اور اَے آئی صنعتوں کے لیے بجلی کے خصوصی ٹیرف وضع کرنے سے پاکستان اگلی دہائی میں ایک ٹریلین ڈالر کی اقتصادی ترقی غیرمقفل کر سکتا ہے۔
مصنوعی ذہانت اب مستقبل کا محض تصوّر نہیں، یہ جدید معیشتوں کی ریڑھ کی ہڈی بن رہی ہے۔ چین، ریاستہائے متحدہ اَور بھارت جیسے ممالک نے جدت طرازی، صنعتی پیداواری صلاحیت بڑھانے اور برآمدات میں اضافے کے لیے اے آئی سے بھرپور فائدہ اْٹھایا ہے۔ پاکستان کو اْن کی پیروی کرنی چاہیے ورنہ پیچھے رہ جانے کا خطرہ ہے۔
پاکستان کا موجودہ ریگولیٹری فریم ورک اے آئی کمپنیوں کے لیے ترقی کرنا مشکل بناتا ہے۔ جی پی یو ایس (GPUs) اے آئی چپس اور اَعلیٰ کارکردگی والے کمپیوٹنگ آلات پر درآمدی ڈیوٹی حد سے بہت زیادہ ہے جو ملک میں سرمایہ کاری کو آنے سے روکتی ہے۔ ڈیوٹی فری اے آئی درآمدی پالیسی پاکستانی اسٹارٹ اپس اور تحقیقی اداروں کے لیے لاگت کم کرے گی جس سے وہ عالمی سطح پر مقابلہ کر سکیں گے۔
مزیدبراں مہنگی بجلی بھی پاکستان میں اے آئی کی ترقی میں بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ توانائی کے زیادہ اَخراجات اور بجلی کی کمی ڈیٹا سنٹرز اور اَے آئی سے چلنے والی کمپنیوں کو موثر طریقے سے کام کرنے سے روکتی ہے۔ وقف شدہ بجلی کی پالیسی اور اَے آئی صنعتوں کے لیے سبسڈی والی توانائی کی شرحیں عالمی سرمایہ کاروں کو راغب کریں گی۔ نیز اے آئی سے چلنے والی مقامی تحقیق اور ترقی (R&D) کو فروغ دے گی۔
مضبوط ٹیک ٹیلنٹ پول ہونے کے باوجود پاکستان کی آئی ٹی برآمدات محض 3.5 بلین ڈالر ہیں۔ اِس کے برعکس پڑوسی ملک بھارت 2025ء میں آئی ٹی کی برآمدات میں 220ارب ڈالر کا ہندسہ عبور کرنے کو تیار ہے۔ یہ فرق ٹیلنٹ کی کمی نہیں بلکہ پاکستان میں اے آئی اور آئی ٹی کی ترقی میں معاون بنتی سرکاری پالیسیوں کی عدم موجودگی عیاں کرتا ہے۔
اگر پاکستان فری لانسرز کے لیے ٹیکس کی رکاوٹیں ہٹاتا ہے، پیپال اور اسٹرایپ جیسے ادائیگی کے حل آسان کرتا ہے اور اَے آئی دوستانہ ریگولیٹری پالیسیاں متعارف کراتا ہے، تو آئی ٹی کی برآمدات 2035ء تک 50 سے 100ارب ڈالر تک بڑھ سکتی ہیں۔ ٹیک اسپیشل اکنامک زونز (SEZs) کا قیام جن میں اے آئی اسٹارٹ اپ پر صفر ٹیکس لگتا ہے، پاکستان کی ڈیجیٹل معیشت میں سرمایہ کاری کو مزید فروغ دے گا۔
پاکستان کے فروغ پذیر اے آئی ماحولیاتی نظام کو جدید ترین ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کی ضرورت ہے۔ اے آئی سرمایہ کاری میں سرِفہرست ممالک جیسے متحدہ عرب امارات، چین اور اَمریکا نے اے آئی سے چلنے والے سمارٹ شہر بنا، تیز رفتار اِنٹرنیٹ نیٹ ورکس چلا اور اَے آئی پر مبنی عوامی خدمات دے کر شہرت پائی ہے۔
پاکستان کو اَپنا ہدف حاصل کرنے کے لیے جامع ماڈل پر عمل کرنا چاہیے۔ اْسے تیز رفتار اَے آئی ایپلی کیشنز فعال کرنے اور خودکار پبلک ٹرانسپورٹ، سمارٹ گرڈز اور ڈیجیٹل گورننس کے ساتھ اے آئی سے چلنے والے سمارٹ شہروں کی تعمیر کے لیے فائیو جی اور فائبر آپٹک نیٹ ورکس کو وسعت دینا چاہیے۔ صحت کی دیکھ بھال، فنٹیک، زراعت اور سیکورٹی میں پیش رفت کو فروغ دینے کے لیے حکومت کی حمایت یافتہ اے آئی انوویشن لیبز کا آغاز کرنا چاہیے۔
پاکستان کا صنعتی شعبہ جی ڈی پی میں75 بلین ڈالر سے زیادہ کا حصّہ ڈالتا ہے، لیکن یہ آٹومیشن اور اَے آئی اپنانے میں پیچھے ہے۔ چین، ویتنام اور بھارت جیسے عالمی مینوفیکچرنگ پاور ہاوسز کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں اپنے ٹیکسٹائل، آٹو اور زراعت کے شعبوں میں اے آئی، روبوٹکس اور آئی او ٹی (انٹرنیٹ آف تھنگز) ضم کرنا ہوں گے۔
اے آئی سے چلنے والے مینوفیکچرنگ ہب کارکردگی اور پیداوار بڑھا سکتے ہیں۔ ڈرون کی بنیاد پر درست کھیتی پانی کا استعمال اور فصل کی پیداوار بہتر بنائے گی۔ ٹیکسٹائل کی پیداوار میں روبوٹکس متعارف کرانے سے لاگت کم کر اور معیار بہتر بنا سکتے ہیں۔
اے آئی اپنانے کے لیے پاکستان کو سرمایہ کاری دوست پالیسیوں کی ضرورت ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے ممالک اے آئی اور ڈیٹا سے چلنے والی صنعتوں میں اربوں کھربوں روپے لگا رہے ہیں۔ پاکستان اے آئی سے چلنے والے اسٹارٹ اپس اور ٹیک سرمایہ کاروں کے لیے پانچ تا دس سال کی ٹیکس چھوٹ کی پیشکش کرے۔ اسٹارٹ اپس، فنٹیک اور ڈیپ ٹیک کمپنیوں کو سپورٹ کرنے کے لیے ایک بلین ڈالر کا اے آئی سرمایہ کاری فنڈ تشکیل دے۔ یوں وہ خود کو اَے آئی دوستانہ سرمایہ کاری کے مرکز کے طور پر نمایاں کر سکتا ہے۔ کاروباری رجسٹریشن ہموار کرنا اور غیرملکی اے آئی سرمایہ کاروں کے لیے بیوروکریٹک رکاوٹیں کم کرنا بھی بہت ضروری ہے۔
مالیاتی ٹیکنالوجی (فنٹیک) عالمی معیشتوں کو نئی شکل دے رہی ہے۔ پاکستان میں ڈیجیٹل ادائیگی کے ماحولیاتی نظام کو ترقی کرنے کے باوجود پرانے ضوابط کی وجہ سے اب بھی رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ ایک ریگولیٹڈ کرپٹو کرنسی فریم ورک اور مرکزی بینک ڈیجیٹل کرنسی (CBDC) اربوں ڈالر کی اقتصادی قدر کھو سکتے ہیں۔
حکومتِ پاکستان کو چاہیے کہ وہ مناسب ریگولیٹری نگرانی کے ساتھ کرپٹو کرنسی کی ٹریڈنگ قانونی بنا دے۔ مائیکرو فنانس اور ڈیجیٹل قرضے کے لیے اے آئی سے چلنے والا فنٹیک حل اپنانا ہو گا۔ خودکار فراڈ کا پتا لگانے اور رِسک مینجمنٹ کے لیے اے آئی کو بینکنگ میں ضم کرنا چاہیے۔ اے آئی کارکردگی بہتر بنا کر، بدعنوانی کم کر کے اور شفافیت بڑھا کر پاکستان کی گورننس میں انقلاب برپا ہو سکتا ہے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) ٹیکس چوری روکنے کے لیے اے آئی سے چلتے ٹیکس وصولی نظام کا فائدہ اْٹھا سکتا ہے۔ یوں ممکنہ طور پر ٹیکس ریونیو میں جی ڈی پی کے دو تا تین فی صد تک اضافہ کرنا ممکن ہے۔
خامیاں ختم کرنے کے لیے ٹیکس کا خودکار جائزہ متعارف کرایا جائے۔ عوامی منصوبوں میں تیز رفتار فیصلہ سازی کے لیے اے آئی سے چلنے والی گورننس اختیار کی جائے۔ اے آئی چیٹ بوٹس اور آٹومیشن کے ذریعے بیوروکریسی کا حجم کم کرنے والی سمارٹ پبلک سروسز اپنانا بھی وقت کی ضرورت ہے۔
اے آئی، ڈیجیٹل تبدیلی اور اسٹریٹیجک پالیسی کی تبدیلیوں کے ساتھ پاکستان کی جی ڈی پی 2035ء تک ایک ٹریلین ڈالر سے تجاوز کر سکتی اور دَو دَہائیوں میں دو ٹریلین ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔ سیکٹر کے لحاظ سے یہ آمدن کچھ یوں ممکن ہے:
٭ اے آئی و آئی ٹی سیکٹر … 200ارب ڈالر
٭ مینوفیکچرنگ (اے آئی سے چلنے والی)… 250ارب ڈالر
٭ زراعت (اے آئی پر مبنی) … 150ارب ڈالر
٭ فنٹیک اور ڈیجیٹل اکانومی … 250ارب ڈالر
٭ اسمارٹ انفراسٹرکچر اور آئی او ٹی …200ارب ڈالر
پاکستان اے آئی کو اَپنانے میں تاخیر کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ دنیا اے آئی سے چلنے والی معیشتوں کی طرف بڑھ رہی ہے اور ہمیں پاکستان کو عالمی اے آئی مرکز کے طور پر کھڑا کرنا چاہیے۔ صحیح پالیسیوں، اسٹریٹیجک سرمایہ کاری اور سرکاری نجی شعبے کے تعاون سے ملک خود کو ٹریلین ڈالر کے اکانومی کلب میں شامل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
روڈ میپ واضح ہے: ریگولیٹری رکاوٹیں دور کریں، اے آئی انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری کیجیے، غیرملکی سرمایہ کار کو راغب کریں اور اَے آئی کو گورننس، صنعت اور مالیات میں ضم کر دیں۔ اگر درست طریقے سے عمل درآمد کیا جائے، تو پاکستان عالمی سطح پر مقابلہ کر کے اے آئی سے چلنے والی اقتصادی ترقی میں رہنما بن سکتا ہے۔سنہرے مستقبل کا انحصار اے آئی پر استوار ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان اِس موقع سے فائدہ اْٹھائے گا یا پیچھے رہ جائے گا؟
مارٹن رائزر کی پیشن گوئی
ورلڈ بینک کے نائب صدر برائے جنوبی ایشیا ،مارٹن رائزر کا بھی کہنا ہے کہ پاکستان 2035 ء تک سات فیصد سالانہ شرح نمو کے ساتھ ایک ٹریلین ڈالر کی معیشت بن سکتا ہے، اور اس ہدف کا حصول ’’بالکل‘‘ ممکن ہے۔ایکسپریس نیوز کے ٹاک شو *دی ریویو* کے لیے خصوصی انٹرویو میں ورلڈ بینک کے نمائندے نے کہا ’’ طویل المدتی تخمینے ہمیشہ کچھ پیچیدہ ہوتے ہیں، مگر پاکستان کا مقامی سطح پر تیار کردہ معاشی بحالی منصوبہ آئندہ دہائی میں ملک کو ایک ٹریلین ڈالر کی معیشت بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔‘‘
یاد رہے، رائزر نے دی ریویو کی ٹیم سے اس موقع پر گفتگو کی جب ورلڈ بینک نے پاکستان کو آئندہ دس برسوں میں 20 ارب ڈالر فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ورلڈ بینک کے نائب صدر نے کہا کہ پاکستان کو یہ ہدف حاصل کرنے کے لیے سات فیصد سالانہ شرح نمو درکار ہوگی۔ ’’کیا یہ ممکن ہے؟‘‘ رائزر نے سوال اٹھانے کے بعد خود ہی جواب دیا: ’’بالکل‘‘۔ تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ فی الحال یہ پیش گوئی نہیں کی جا رہی مگر ان اصلاحات پر توجہ دینا ضروری ہے جو اس کو ممکن بنائیں گی۔
ایک سوال کے جواب میں کہ آیا ورلڈ بینک نے دیگر سیاسی جماعتوں سے بھی رابطہ کیا ہے، رائزر نے اثبات میں جواب دیا۔ انہوں نے کہا کہ ورلڈ بینک نے سیاسی سطح پر تمام حلقوں سے مشاورت کی ہے۔ ’’یہ ہماری تیاری کے عمل کا حصہ ہے کہ ہم سول سوسائٹی کے درست گروپ سے مشاورت کرتے ہیں،‘‘ انہوں نے کہا اور مزید بتایا: ’’ہم نے اپوزیشن سے بھی بات کی ہے۔‘‘
پاکستان اور بھارت کے تجارتی تعلقات اور غیر ملکی سرمایہ کاری پر بات کرتے ہوئے رائزر نے کہا کہ پاکستان کو ان معاملات پر توجہ دینی چاہیے جو اس کے اپنے کنٹرول میں ہیں اور اس پر زور دیا کہ سرمایہ کاری کو متوجہ کرنے کے لیے بہت کچھ کیا جا سکتا ہے۔
ایک اور سوال پر کہ پاکستان کے لیے ورلڈ بینک کے 20 ارب ڈالر قرضے کی فراہمی یقینی ہے یا محض اشارہ ہے، رائزر نے کہا کہ یہ ایک ’’اشاریہ‘‘ (indicative) ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ ورلڈ بینک کے قرضہ جاتی طریقہ کار کے تحت پاکستان کو انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ ایجنسی سے رعایتی فنڈز اور انٹرنیشنل بینک برائے تعمیر نو و ترقی سے غیر رعایتی سرکاری قرضے، دونوں تک رسائی حاصل ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کے لیے قرضہ جاتی وسائل کا تعین اس کی معیشت کے حجم اور قرض واپس کرنے کی صلاحیت کے مطابق طے ہوتا ہے۔