اسٹارمر، جنہوں نے جولائی 2024 میں 14 سال بعد لیبر پارٹی کو اقتدار میں واپس لایا تھا، اندرونی اختلافات، حکومتی اسکینڈلز اور گرتی ہوئی مقبولیت کے باعث شدید دباؤ میں ہیں۔ تازہ سرویز کے مطابق ریفارم پارٹی لیبر سے 12 پوائنٹس آگے ہے جبکہ اسٹارمر کی عوامی مقبولیت 1977 سے کسی بھی برطانوی وزیراعظم کے لیے سب سے کم سطح پر پہنچ گئی ہے۔
انہوں نے بی بی سی کو انٹرویو میں کہا: “ہمیں ریفارم کا مقابلہ کرنا ہے اور انہیں شکست دینی ہے۔ اس کے اثرات نسلوں تک رہیں گے۔” اسٹارمر نے ریفارم کے مہاجرین کے خلاف سخت ویزا قوانین کو “نسل پرستانہ” قرار دیا اور کہا کہ یہ منصوبہ ملک کو توڑ دے گا۔
وزیرِاعظم کو داخلی مسائل کے ساتھ ساتھ معاشی مشکلات کا بھی سامنا ہے۔ برطانیہ کی سست معیشت کے باعث ٹیکس بڑھانے والا بجٹ متوقع ہے جبکہ حالیہ فیصلوں پر پارٹی کے بائیں بازو کے ارکان ناراض ہیں۔ ڈپٹی وزیراعظم اینجلا رینر کے استعفے اور واشنگٹن میں برطانیہ کے سفیر پیٹر مینڈلسن کو برطرف کرنے کے فیصلے نے اسٹارمر کی قیادت پر مزید سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔
کانفرنس میں آسٹریلیا کے وزیرِاعظم انتھونی البانی زے نے اسٹارمر کی حمایت میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ “مشکل راستہ ہی وہ واحد راستہ ہے جو ہمیں آگے لے جاتا ہے۔” اسٹارمر منگل کے روز اپنا کلیدی خطاب کریں گے جہاں وہ آئندہ الیکشن کو “لیبر کی محب وطن نئی سوچ” اور “ریفارم کی زہریلی سیاست” کے درمیان معرکہ قرار دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔