رپورٹ کے مطابق ستمبر میں اسرائیل کے دوحہ پر حملے نے قطر میں جاری غزہ مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کیا، جس پر خطے اور واشنگٹن میں سخت ردِعمل سامنے آیا۔ اس کے بعد امریکا اور عرب ممالک نے اسرائیل پر سفارتی دباؤ بڑھایا جس کے نتیجے میں نیتن یاہو نے ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے میں نرم رویہ اختیار کیا۔
نیویارک ٹائمز کا کہنا ہے کہ امریکی دباؤ کے باوجود نیتن یاہو نے منصوبے کی کئی شقوں میں ترامیم کروائیں، جن میں خاص طور پر غزہ سے مکمل انخلا اور فلسطینی ریاست کے قیام سے متعلق نکات شامل نہیں کیے گئے۔
پاکستان میں بھی غزہ امن منصوبے پر مختلف آراء سامنے آئیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اس منصوبے کا خیرمقدم کیا، تاہم وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے واضح کیا کہ امریکی صدر کی جانب سے پیش کردہ 20 نکات پاکستان کے تیار کردہ نہیں ہیں اور ان میں کئی اہم پہلوؤں کو شامل نہیں کیا گیا۔
عرب میڈیا کے مطابق نیتن یاہو نے دوحہ حملے پر قطر سے معافی مانگتے ہوئے دوبارہ حملہ نہ کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی۔
دوسری جانب فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے ٹرمپ کے امن منصوبے پر مثبت ردعمل دیتے ہوئے بعض نکات پر تحفظات کا اظہار کیا اور انہیں قبول کرنے سے فی الحال انکار کردیا۔