پاکستان کا اقوام متحدہ سے غزہ سے کشمیر تک حق خودارادیت کے تحفظ کا مطالبہ

0 minutes, 0 seconds Read
پاکستان نے اقوام متحدہ سے غزہ سے کشمیر تک حق خود ارادیت کے تحفظ کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ جموں و کشمیر اور فلسطین کے عوام آج بھی غیر ملکی تسلط کے زیر سایہ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس کی سیاسی و نوآبادیاتی امور کی خصوصی کمیٹی سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار احمد نے کہا کہ استعمار کے ناتمام خاتمے کا عمل “عالمی برادری کے ضمیر کا امتحان” بنا ہوا ہے، جموں و کشمیر اور فلسطین کے عوام آج بھی غیر ملکی تسلط کے زیرِ سایہ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جو ان اصولوں سے سنگین انحراف ہے جن پر اقوام متحدہ کی بنیاد رکھی گئی تھی۔

سفیر عاصم افتخار احمد نے اعادہ کیا کہ حق خودارادیت اقوام متحدہ کے منشور کا بنیادی ستون ہے، اور اسے ان تمام اقوام کے لیے یقینی بنایا جانا چاہیے جنہیں اب تک آزادی سے محروم رکھا گیا ہے۔

جموں و کشمیر کے مسئلے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے زور دیا کہ کشمیری عوام کو حق خودارادیت سے محروم رکھا گیا ہے، جو اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر سب سے پرانے اور حل طلب تنازعات میں سے ایک ہے، سلامتی کونسل کی قراردادیں آج بھی قابل عمل اور لازم التعمیل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر کا حتمی فیصلہ اقوام متحدہ کی زیر نگرانی ایک آزاد اور غیر جانب دارانہ رائے شماری کے ذریعے، کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق کیا جانا چاہیے۔

پاکستانی سفیر نے واضح کیا کہ گزشتہ سات دہائیوں سے بھارت جبر، فریب اور طاقت کے وحشیانہ استعمال کے ذریعے اپنی ذمہ داریوں سے فرار اختیار کر رہا ہے۔

انہوں نے یاد دلایا کہ تقریباً 9 لاکھ بھارتی فوجیوں کی تعیناتی نے مقبوضہ جموں و کشمیر کو ایک بدترین فوجی قید خانے میں بدل دیا ہے جہاں ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگیاں، تشدد، من مانیاں گرفتاریاں، اور اجتماعی سزائیں عام ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ سب بھارت کے 5 اگست 2019 کے غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات کا نتیجہ ہیں، جن کے ذریعے اس نے متنازع علاقے کو غیر قانونی طور پر ضم کرنے کی کوشش کی، جو سلامتی کونسل کی قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

پاکستانی مستقل مندوب نے خبردار کیا کہ ہمسایہ ملک کا نوآبادیاتی منصوبہ خطے کی آبادیاتی ساخت کو تبدیل کرنے کی ایک منظم کوشش ہے، جو بین الاقوامی قانون اور اقوامِ متحدہ کے منشور کی صریح خلاف ورزی ہے اور یہ سب ایک انتہا پسند ہندوتوا نظریے کے تحت ہو رہا ہے جو مذہبی عدم برداشت اور خارجیت پر مبنی ہے۔

عاصم افتخار نے کشمیری عوام کے حوصلے کو خراج تحسین پیش کیا، جو اپنی آزادی کی جدوجہد بہادری سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔

انہوں نے زور دیا کہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کا قیام اس وقت تک ممکن نہیں جب تک جموں و کشمیر کا تنازع انصاف پر مبنی حل نہ پالے، امن کو ناانصافی اور حقوق کی پامالی پر استوار نہیں کیا جا سکتا۔

غزہ کی صورت حال پر بات کرتے ہوئے انہوں نے جاری انسانی المیے کی سخت مذمت کی، جہاں پوری کی پوری بستیاں ملبے میں تبدیل ہو چکی ہیں اور عورتوں و بچوں کو سفاکی سے قتل کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ حادثاتی نہیں بلکہ دانستہ جرائم ہیں جو بین الاقوامی انسانی قانون کی کھلی خلاف ورزی ہیں اور واضح کیا کہ قبضہ ختم ہونا چاہیےکیونکہ یہی خطے میں عدم استحکام کی جڑ ہے۔

عاصم افتخار نے کہا کہ موجودہ حالات کی سنگینی کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔

انہوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی عرب اور او آئی سی رہنماؤں کے ساتھ حالیہ مشاورت کا خیر مقدم کیا اور امید ظاہر کی کہ اس سے فلسطینی ریاست کے قیام اور خطے میں پائیدار امن کے لیے ایک قابلِ اعتماد سیاسی عمل آگے بڑھے گا۔

پاکستان نے اپنے دیرینہ مؤقف کا اعادہ کیا کہ وہ ایک آزاد، مستحکم اور جغرافیائی طور پر متصل فلسطینی ریاست کی حمایت کرتا ہے، جو 1967 سے قبل کی سرحدوں پر مبنی ہو اور جس کا دارالحکومت القدس شریف ہو۔

انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ امن اور قبضہ ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے، جیسے انصاف اور استثنیٰ ایک ساتھ وجود نہیں رکھتے، پاکستان اقوام متحدہ کے منشور کے بنیادی مقاصد کے فروغ اور ناتمام عمل استعماریت کو مکمل کرنے کے عزم پر قائم ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ فلسطین اور کشمیر کی جدوجہد اس امر کی زندہ علامت ہے کہ جب تک آزادی چھینی جاتی رہے گی، انسانی وقار بھی مجروح ہوتا رہے گا، بین الاقوامی برادری 21ویں صدی میں کسی بھی صورت میں نوآبادیاتی تسلط کے تسلسل کی اجازت نہیں دے سکتی۔

Similar Posts