یہ کبھی شاعری کی صورت میں حسن و جمال کو اجاگر کرتا ہے تو کبھی نثر اور فکشن میں فکر و دانش کو سامنے لاتا ہے۔ادب قوموں کی تہذیب، ثقافت اور ان کے سماجی رویوں کا آئینہ بھی ہوتا ہے اور فرد کو اپنی ذات اور کائنات کو سمجھنے کا ذریعہ بھی فراہم کرتا ہے۔اس طرح ادب انسان اور زندگی کے درمیان ایک گہرے تعلق کو سامنے لاتا ہے۔
ادب کی تاریخ میں ہر عہد اپنی مخصوص فکری،سماجی اور تہذیبی خصوصیات کا حامل رہا ہے۔بیسویں صدی کے وسط کے بعد ایک نیا فکری اور ادبی رویہ سامنے آیا جسے ما بعد جدیدیتPost modernism)کہا جاتا ہے۔یہ تحریک دراصل جدیدیت کے ردِ عمل کے طور پر ابھری۔اگر جدیدیت نے ٹیکنالوجی،عقلیت،سائنسی فکر،منطق اور آفاقی سچائی پر زور دیا تو مابعد جدیدیت نے ان سب پر سوالات اُٹھا دیے۔ صنعتی انقلاب اور دو عالمی جنگوں نے دنیا بدل کر رکھ دی۔ کلچر،ملٹی کلچر میں اور دور دراز دنیا گلوبل سانچے میں تیزی سے ڈھلنے لگی۔
دوسری عالمی جنگ میں لوگوں کا سائنس اور ٹیکنالوجی و Reasonسے اعتماد اُٹھ گیا کیونکہ دوسری عالمی جنگ میں بے پناہ تباہی ہوئی،بہت زیادہ خون بہا،لاکھوں اموات ہوئیں،ناگا ساکی اور ہیروشیما پر دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ عظیم تباہی لانے والے ایٹم بم برسائے گئے۔ ایسے میں ادب پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوئے۔پوسٹ ماڈرنازم،جدیدیت کے خلاف ایک احتجاجی ردِ عمل بن گیا۔
مابعد جدیدیت کی فکری بنیادیں۔مابعد جدیدیت کا بنیادی نظریہ یہ ہے کہ دنیا میں کوئی حتمی یا مطلق سچائی نہیں۔ہر سچائی اضافیRelativeہے اور اس کا انحصارسماجی،ثقافتی اور ذاتی تناظر پر ہوتا ہے۔فرانسیسی مفکر جیکس دریداJaques Deridaمشل فوکوMichel focalt اور ژاں فرانس لیوتاد کو مابعد جدیدیت کے اہم ستون تصور کیا جاتا ہے۔لیوتاد نے کہا کہ مہا بیانیےGrand Narrative یعنی وہ نظریات جو پوری انسانیت کو ایک آفاقی سچائی و اکائی میں پرونے کی کو شش کرتے ہیں اب اپنی حیثیت کھو چکے ہیں۔مابعد جدیدیت ان بیانیوں کو رد کر کے کثرت، تنوع اور انفرادی حقیقت پر زور دیتی ہے۔کافکا کی کہانی Metamorphesis جس کا مرکزی کردار کاکروچ ہے اس سے اس نئے چلن نے قوت پکڑی۔
ادب میں مابعد جدید رویہ
تجربہ اور تنقید پر زور-اس رویہ میں متن کو حتمی معنوں کے حامل کے طور پر نہیں لیا جاتا بلکہ کہا جاتا ہے کہ قاری اپنی تعبیرات خود تراشے اور ان تعبیرات کے مطابق متن میں معنی تلاش کرے۔
بین المتونیت۔Inter texualityمابعد جدیدیت ادب میں اکثر پچھلے متون،اسلوب اور حوالوں کو نئے سیاق میں شامل کرکے ایک نیا بیانیہ تخلیق کیا جاتا ہے۔
تجرید اور بے باک پن۔اس رویے کے مطابق حقیقت کو براہِ راست بیان کرنے کے بجائے علامتوں،استعاروں اور کھیل پن کے ذریعے پیش کیا جاتا ہے۔
مرکزیت کا خاتمہ۔ جدیدیت میں فنکار کو عمومی طور پر مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے مگر ما بعد جدیدیت میں مصنف یا متن کو مرکزیت حاصل نہیں ہوتی بلکہ قاری یا سامع کی تعبیر کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔
طنز و مزاح اور پیروڈی۔سنجیدہ موضوعات کو بھی نہایت ہلکے پھلکے یا مزاحیہ انداز میں پیش کیا جاتا ہے تاکہ مطلق سنجیدگی اور بھاری پن حاوی نہ رہے۔
کثیرالمعنویت۔مابعد جدید ادب میں کسی متن کا صرف ایک ہی مفہوم نہیں ہوتا بلکہ ہرپڑھنے والے کی اپنی بیک گراؤنڈ کے مطابق اس کے لیے مختلف معنی جنم لیتے ہیں۔
شاعری میں مابعد جدید رویہ۔شاعری میں مابعد جدیدیتی رویہ نے سخت پابندیوں اور کلاسیکی اصولوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے نئے اندازِ اظہار کو فروغ دیا جس کی وجہ سے آزاد نظم،نثری نظم اور علامتی اظہار کی راہیں وا ہوئیں۔ شاعروں نے اس آزادی سے خوب فائدہ اُٹھایا اور زبان کو کئی نئی صورتوں میں استعمال کیا۔شاعروں نے روایت کو نئے تناظر میں برتا۔
مابعد جدیدیت کی تنقید۔اگرچہ مابعد جدیدیت نے ادب میں نئی جہتیں پیدا کیں لیکن اس کے ناقدین بھی بہت ہیں۔اس کے ناقدین کے نزدیک اس کی بڑی خامیاں یہ ہیں کہ مابعد جدیدیت نے مطلق اقدار اور آفاقی سچائی کو سرے سے ہی نظر انداز کر دیا۔بعض ناقدین کے نزدیک یہ ادب انتشار اور ابہام کو بڑھاوا دیتا ہے۔
مابعد جدیدیت نے ادب کو محض فکری اظہار نہیں رہنے دیا بلکہ ایک مکالمہ بنا دیا ہے جس میں مصنف،قاری،سامع اور متن سب شریک ہیں۔یہ تحریک ہمیں باور کراتی ہے کہ حقیقت اٹل ،جامد اور Absoluteنہیں ہوتی بلکہ متحرک ہوتی ہے اور ہر فرد اپنے تناظر اپنی بیک گراؤنڈ کے مطابق معنی اخذ کرتا ہے اور کر سکتا ہے۔اگرچہ مابعد جدیدیت پر تنقید کی جاتی ہے کہ یہ مطلق اقدار اور آفاقی سچائی سے روگردانی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ مابعد جدیدیت نے ادب کو نئے اسلوب،نئی تکنیک اور نئے امکانات سے روشناس کروایا۔
اردو ادب کی تاریخ میں مختلف فکری و ادبی تحریکیں وقوع پذیر ہوتی رہی ہیں جنھوں نے اظہار کے اسالیب اور موضوعات کو نئی جہتیں عطا کیں۔بیسویں صدی کے آخری عشروں میں اردو ادب پر بھی مابعد جدیدیت کے اثرات دیکھنے کو ملے البتہ اردو ادب میں بھی مابعد جدیدیت کی خصوصیات بہت حد تک وہی رہیں جو پوری دنیا میں اس کا خاصہ ہیں۔اردو ناول اور افسانے میں مابعد جدیدیت زیادہ نکھر کر سامنے آئی ہے۔انتظار حسین مرحوم کے ناول اور افسانے میں تاریخ، اساطیر اور حال ایک ساتھ جڑے ہیں۔
شاعری میں جناب انور سجاد ،عرفان صدیقی،وزیر آغا، جون ایلیا، ظفر اقبال اور نئی نسل کے بے شمار شعرا نے اس رجحان کو کسی نہ کسی صورت اختیار کیا۔ مابعد جدید تحریک نے اردو شاعری کو زیادہ لچکدار،کثیر المیعاد اور حال کے تقاضوں سے ہم آہنگ کر دیا ہے۔پاکستان کی تمام زبانوں میں لکھے جانے والے پاکستانی ادب میں اس تحریک نے جگہ بنائی ہے،یہ الگ بات ہے کہ کچھ رائٹرز کے نزدیک پاکستان میں جدیدیت کی تحریک نہیں پہنچی تو مابعد جدیدیت کیسے ڈیرے ڈالتی۔