عدل و انصاف

0 minutes, 0 seconds Read
اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو انسان کو انفرادی، معاشرتی، اخلاقی اور سیاسی زندگی کے ہر پہلو میں راہ نمائی فراہم کرتا ہے۔ اسلام کا ایک بنیادی اصول ’’عدل و انصاف‘‘ ہے۔ عدل و انصاف صرف قانون کی بالادستی کا نام نہیں، بلکہ ایک ایسی ہمہ گیر قدر ہے جو ہر شعبۂ زندگی میں توازن، مساوات اور حق دار کو اُس کا حق دینے پر زور دیتی ہے۔ اسلام ایک ایسا الہامی دین ہے جو انسانی زندگی کے ہر شعبے میں راہ نمائی فراہم کرتا ہے۔

چاہے وہ فرد کی نجی زندگی ہو یا اجتماعی نظام، اخلاقیات ہوں یا معیشت، سیاست ہو یا عدالت۔ اسلام ہر میدان میں ایک واضح اور جامع اصول عطا کرتا ہے۔ انھی اصولوں میں سے ایک بنیادی اور ہمہ گیر اصول عدل و انصاف ہے، جو اسلامی معاشرے کی روح اور بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے۔

عدل و انصاف کی تعریف:

عدل کا مطلب ہے کہ ہر شخص کو اُس کا حق دیا جائے، بلا تفریق مذہب، نسل، ذات یا حیثیت۔ انصاف کا مطلب ہے ہر معاملے میں دیانت داری، حق گوئی، اور برابری کا سلوک۔ اسلام کے نزدیک انصاف صرف عدالت کا معاملہ نہیں بلکہ ایک زندگی کا نظریہ ہے، جو دلوں میں تقویٰ اور معاشرتی امن کو فروغ دیتا ہے۔

عدل و انصاف کا قرآنی تصور:

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر عدل و انصاف کا حکم دیا ہے۔ سورہ النحل میں ارشاد باری تعالیٰ ہے، مفہوم: ’’بے شک! اﷲ عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے۔‘‘

یہ آیت اسلام کے عدل پر مبنی نظام کی بنیاد فراہم کرتی ہے۔ عدل کا مطلب ہے کسی کے ساتھ بھی زیادتی نہیں کرنا اور نہ ہی کسی کا حق مارنا، بل کہ ہر فرد کو اس کا جائز مقام اور حق دینا۔

قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی کا مفہوم: اے ایمان والو! عدل و انصاف پر مضبوطی سے جم جانے والے اور اﷲ کی خوش نُودی کے لیے سچی گواہی دینے والے بن جاؤ۔ اگرچہ وہ خود تمہارے اپنے خلاف ہو یا ماں باپ کے یا رشتے داروں عزیزوں کے وہ شخص اگر امیر ہو تو اور مفلس ہو تو دونوں کے ساتھ اﷲ کا زیادہ تعلق ہے اس لیے تم خواہش نفس کے پیچھے پڑ کر انصاف نہ چھوڑ دینا اور اگر تم نے کج بیانی یا پہلو تہی کی تو جان لو کہ جو کچھ تم کروگے اﷲ تعالی اس سے پوری طرح باخبر ہے۔‘‘ (سورۃ النساء)

یہ آیت عدل کے لیے کسی مصلحت، فوائد حتی کہ قریب ترین رشتہ داری کی بھی پروا نہ کرنے کا حکم دیتی ہے۔

عدل و انصاف کی نبوی مثال:

نبی کریم ﷺ کی سیرت طیبہ عدل و انصاف کا بہترین نمونہ ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’لوگو! تم سے پہلی قومیں اسی لیے تباہ ہوئیں کہ وہ کم زور کو سزا دیتی تھیں اور طاقت ور کو چھوڑ دیتی تھیں۔ اﷲ کی قسم! اگر فاطمہ بنت محمد ﷺ بھی چوری کرتیں تو میں ان کا ہاتھ کاٹ دیتا۔‘‘ (صحیح بخاری)

یہ حدیث مبارکہ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ اسلام میں قانون سب کے لیے برابر ہے، خواہ وہ کسی بھی خاندان، مرتبے یا رتبے کا ہو۔

خلفائے راشدین اور عدل:

حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کا ایک مشہور واقعہ ہے کہ ایک عام شہری کے ساتھ خود عدالت میں پیش ہو کر قاضی کے سامنے جواب دیا، حالاں کہ وہ خلیفہ وقت تھے۔ اسی طرح حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کا ایک مقدمہ ایک یہودی کے ساتھ پیش آیا۔ قاضی نے شواہد نہ ہونے پر یہودی کے حق میں فیصلہ دیا، جسے حضرت علی کرم اﷲ وجہہ نے خندہ پیشانی سے قبول کیا۔ یہ واقعات اسلامی عدل کی عملی مثالیں ہیں۔

اسلام کا عدالتی نظام:

اسلامی عدالتی نظام میں قاضی کو ہر حال میں انصاف کا پابند کیا گیا ہے۔ رشوت، تعصب، سفارش اور ذاتی تعلقات کو یکسر مسترد کر دیا گیا ہے۔ قاضی کو متقی، دیانت دار اور حق گو ہونا ضروری قرار دیا گیا ہے۔

ہر شعبہ زندگی میں عدل و انصاف:

اسلام میں عدل و انصاف صرف عدالتوں تک محدود نہیں بلکہ روزمرہ زندگی، کاروبار، وراثت، نکاح، خاندانی معاملات، حتیٰ کہ دشمنوں کے ساتھ برتاؤ میں بھی مطلوب ہے۔ قرآن کہتا ہے، مفہوم: ’’کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر نہ اُکسائے کہ تم انصاف نہ کرو۔ انصاف کرو، یہی تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔‘‘ (سورہ المائدہ)

عدل و احسان کا باہمی تعلق:

اﷲ تعالیٰ نے عدل کے ساتھ احسان کا بھی حکم دیا۔ عدل کا مطلب ہے حق دینا، جب کہ احسان کا مطلب ہے حق سے بڑھ کر بھلا کرنا۔ ایک اسلامی معاشرہ صرف اس وقت مکمل ہو سکتا ہے جب عدل کے ساتھ احسان کو بھی اختیار کیا جائے۔

عدل و انصاف کا معاشرتی کردار:

عدل و انصاف کسی بھی معاشرے کی پائیداری، سلامتی اور خوش حالی کے لیے بنیاد کا پتھر ہے۔ جہاں عدل ہوتا ہے وہاں:

•  امن قائم ہوتا ہے۔

•  جرائم میں کمی آتی ہے۔

•  معاشرتی توازن قائم ہوتا ہے۔

•  انسانی حقوق کا تحفظ ہوتا ہے۔

•  عوام کا حکم رانوں پر اعتماد بڑھتا ہے۔

جب کہ اس کے برعکس، جہاں ناانصافی ہو وہاں ظلم و فساد، محرومی و بداعتمادی، اور انتشار جنم لیتے ہیں، جو بالآخر معاشرتی زوال کا سبب بنتے ہیں۔

عدل کی موجودہ دنیا میں اہمیت:

آج کے دور میں امت مسلمہ اگر عدل و انصاف کے اسلامی اصولوں کو چھوڑ دے گی تو بدعنوانی، اقربا پروری، اور بدامنی معاشرے کو کھوکھلا کر دیں گے۔ افسوس کہ بیشتر مسلم ممالک میں عدالتی نظام کم زور ہے، امیر و غریب کے لیے قوانین مختلف ہیں، اور طاقت ور کو کھلی چھوٹ حاصل ہے۔ اگر اسلامی معاشرے عدل پر مبنی نظام نافذ کریں تو نہ صرف دنیا میں ایک مثالی نظام قائم ہو سکتا ہے بلکہ آخرت کی فلاح بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔

عدل کا اطلاق:

انفرادی سے ریاستی سطح تک اسلامی تعلیمات کے مطابق عدل کا نفاذ صرف ریاست کی ذمہ داری نہیں، بل کہ پورے سماج کے ہر فرد کی ذمے داری ہے کہ

•  والدین بچوں میں عدل کریں۔

•  اساتذہ طلباء سے مساوی سلوک کریں۔

•  آجر و اجیر (ملازم و مالک) ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھیں۔

•  حکم ران و عوام دونوں انصاف کے اصولوں پر قائم ہوں۔

ایک ایسا معاشرہ جہاں ہر فرد عدل کا پابند ہو، وہاں ظلم و فساد کی کوئی جگہ نہیں رہتی۔

بین الاقوامی سطح پر عدل کی اہمیت:

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے منشور میں بھی عدل و انصاف کو بنیادی قدر قرار دیا گیا ہے۔ اگر عالمی سطح پر طاقت ور ممالک بھی عدل کو اپنائیں تو بہت سی جنگیں، ناانصافیاں اور استحصال ختم ہو سکتا ہے۔

اسلام کا پیغام سراسر عدل، توازن اور برابری کا پیغام ہے۔ عدل و انصاف نہ صرف اسلامی معاشرے کی بنیاد ہے بل کہ دنیا کے ہر نظام کی کام یابی کے لیے ضروری ہے۔ آج جب دنیا ظلم، ناانصافی اور فساد کی لپیٹ میں ہے، تو مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ اسلام کے عدل و انصاف کے سنہری اصولوں کو اپنی زندگی میں نافذ کریں۔ انفرادی کردار سے لے کر حکومتی پالیسیوں تک عدل کو نافذ کیا جائے تاکہ ایک پرامن، خوش حال اور مستحکم معاشرہ وجود میں آ سکے۔ عدل کے بغیر کوئی قوم دیرپا ترقی حاصل نہیں کر سکتی، اور نہ ہی حقیقی امن ممکن ہے۔ اسلامی تعلیمات پر عمل ہی دنیا و آخرت کی فلاح کی ضمانت ہے۔

Similar Posts