بلتستان داستان (تیسرا اور آخری حصہ)

 بات چوں کہ دیوسائی نیشنل پارک کی ہورہی ہے، اس لیے صرف دیوسائی نیشنل پارک کو زیربحث لانے میں کوئی حرج نہیں۔ دنیا کے بلند ترین نیشنل پارکس میں سے ایک دیوسائی نیشنل پارک ہے جو اسکردو سے 53 کلومیٹر کے فاصلے پر استور، خرمنگ اور اسکردو کے درمیان واقع ہے۔

اس کا رقبہ تین ہزار مربع کلومیٹر ہے۔ نایاب بھورے ریچھ کی نسل کو بچانے کے لیے اس جگہ کو نیشنل پارک کا درجہ دیا گیا ہے۔ دیوسائی آٹھ سے نو ماہ تک مکمل طور پر برف سے ڈھکا ہوتا ہے اور صرف جون سے ستمبر تک قابل رسائی ہوتا ہے۔ 

 آپ جب کبھی پہاڑوں میں ٹریکنگ کر رہے ہوں اور خاص کر استور کی جانب تو ایک لفظ سلاجیت آپ کو بکثرت دیواروں پہ لکھا ہوا ملے گا اور یہ بھی کہ ’’یہاں اصلی صلاحیت دست یاب ہے۔‘‘ سلاجیت بنیادی طور پر پورے گلگت بلتستان کے علاوہ چترال میں بھی پائی جاتی ہے مگر اس کے خاص مقام چلاس، گلگت، بالائی ہنزہ، اسکردو اور چترال ہیں۔ سلاجیت کے کئی فوائد ہیں جن میں ہڈیوں کی کم زوری، جوڑوں کا درد، پٹھوں میں پڑنے والے عضلاتی کھچاؤ، خون کی سوجن، جسمانی کم زوری، نامردی اور بڑھاپے میں سردی سے بچاؤ ہے۔

خصوصی طور پر سلاجیت ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کو جوڑنے اور جسم کو گرمائی دینے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ سلاجیت میں آئرن، زنک اور میگنیشیم سمیت 85 سے زائد معدنیات پائی جاتی ہیں۔ یہ سب معدنیات انسانی جسم کے خون کے دباؤ میں اضافہ کرتی ہیں اور قوت مدافعت اور اعصابی نظام میں بہتری لاتی ہیں، جس کی وجہ سے الزائم، ڈپریشن اور دماغ کے لیے یہ بہت مفید ہیں۔

سلاجیت کو چنے کے دانے کے برابر گرم دودھ کے ساتھ ملا کرلینا چاہیے۔ 50 سال سے زائد عمر کے افراد روزانہ اور دو تین ماہ تک کھا سکتے ہیں اور جوان لوگ ہفتے میں دو تین سے زیادہ استعمال نہیں کرسکتے۔ بلڈ پریشر کے مریضوں کے لیے اس کا استعمال نقصان دہ ہے کیوںکہ اس میں معدنیات کی زیادتی ہے جو کہ بلڈ پریشر کو بڑھا دیتی ہے اس کے علاوہ دل کے مریضوں میں مبتلا لوگوں کو بھی اس کا استعمال نہیں کرنا چاہیے۔

 کہتے ہیں کہ پندرہ سولہ ہزار فٹ کی بلندی پر دیوسائی میدان میں ایسے پھول ہیں جو کم لوگوں نے دیکھے ہوں گے اور ریچھ ہیں جو مچھلیوں کا شکار کرتے ہیں۔ وہاں تیز اور سرد ہوائیں چلتی رہتی ہیں۔ 

اگر آپ دیوسائی عبور کرنا چاہتے ہیں تو آپ اسکردو سے صد پارہ گاؤں جاتے ہیں اور پھر وہاں سے دیوسائی اور دوسری جانب چلم چوکی کے راستے استور پہنچ جاتے ہیں۔ اسی راستے پر آپ اس استور سے ہوتے ہوئے سکردو کی جانب بھی آسکتے ہیں۔ 

ہم چلم چوکی واپس پہنچے تو آدھا دن گزر چکا تھا۔ چلم چوکی کے واحد ہوٹل پر چائے پی اور ہمارا راہ نما شعیب ہمارے داخلے کی اجازت پانے کے لیے چلم میں بنی اس فوجی چوکی پر چلا گیا جہاں آپ کے شناختی کارڈ کی اچھی طرح جانچ پڑتال کی جاتی ہے اور پھر آپ چلم چوکی سے آگے منی مرگ کی جانب جاسکتے ہیں۔ چلم چوکی پار کرتے ہی ایسے نظارے آتے ہیں کہ پاکستان ہونے کا گمان ہی نہیں ہوتا۔ صاف ستھری ہوا، ہر جانب ہریالی ہی ہریالی اور درہ بزرل سے آتا ہوا چھوٹا سا استور نالا۔ یہاں یہ واقعی ایک نالے کی مانند ہی لگتا ہے۔

یہاں مختلف اقسام کے گلابی پھول بھی کھلے ہوئے تھے۔ کچھ نہ کچھ وقت کے بعد ہمارے دائیں یا بائیں جانب سے کوئی نہ کوئی چھوٹا نالہ دریائے استور میں شامل ہورہا تھا۔ میرے دوستوں کا خیال تھا کہ یہ مناظر بالکل باشو وادی کی طرح ہیں جب کہ میں نے باشو وادی دیکھی ہی نہ تھی بلکہ مجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ باشو ہے کس طرف۔ اس لیے خاموشی میں ہی عافیت جانی۔ جلد ہی میرے سامنے ایک ایسا نظارہ تھا جہاں دو بڑے بڑے پہاڑ آپس میں مل رہے تھے اور درمیان سے سڑک گزر رہی تھی، مگر افسوس میں اس منظر کی تصویر پیچھے بیٹھا ہونے کی وجہ سے نہ لے سکا اور میرا موڈ شدید خراب ہوگیا۔

ہم ان ہی پہاڑوں کی طرف چلنے لگے اور دریائے استور کے منبع کے عین اوپر پہنچ گئے۔ یہ درہ بزرل تھا جس کی برفوں سے دونوں اطراف میں نالے نکلتے ہیں۔ درہ بزرل بالکل درہ بابو سر جیسا ہے۔ آپ چڑھائی چڑھتے جاتے ہیں اور پھر ایک دم سے گول گول چکروں کی صورت خطرناک اترائی آتی ہے۔ جیسے درہ بابو سر کا درجۂ حرارت بہت کم ہوتا ہے مگر جوں ہی آپ نیچے اترتے ہیں تو درجۂ حرارت میں نمایاں اضافہ دیکھتے ہیں، بالکل ایسے ہی درہ بزرل اترے ہی درجۂ حرارت میں بابو سر کی طرح اضافہ تو نہیں ہوتا مگر درجۂ حرارت میں فرق ضرور آتا ہے۔ درہ بزرل سے اترتے ہی آپ حسین وادی کے سحر میں کھوئے ہوتے ہیں کہ ایک بڑی سی چیک پوسٹ بمعہ ہوٹل آپ کے اپنے ہی ہاتھ آپ کو ملتی ہے۔ بس یہی منی مرگ ہے۔

 برزل شمالی کشمیر کی خوبصورت وادی گُریز کی ذیلی شاخ وادیِ برزل ایک دل کش وادی ہے جو قدرتی حسن سے مالامال ہے۔ گھنے جنگلات، سبزہ زار، نیلگوں جھیلیں، برف پوش چوٹیاں، یخ بستہ ندیاں، اور مٹی کی خوشبو اِس وادی کو گلگت بلتستان کے خشک اور بھورے پہاڑوں سے ممتاز کرتی ہے۔ یہ کشمیر اور استور کے درمیان واقع ہے برزل وہ مقام ہے جو دریائے سندھ اور دریائے جہلم کے پانی کو تقسیم کرتا ہے۔

وادی برزل اچھورہ سے شروع ہو کر شمال میں برزل درّے کے مقام پر ختم ہوتی ہے۔ اِس وادی کے دو بڑے گاؤں اچھورہ اور چورون ہندوستان کے زیرانتظام ہیں جب کہ منی مرگ اور کامری اور دیگر بارہ سے زائد دیہات پاکستان کے زیرانتظام گلگت بلتستان کے ضلع استور سے جڑے ہوئے ہیں۔ غدر 1947 میں ریاست جموں و کشمیر بیرونی حملوں سے بُری طرح متاثر ہوئی، جس کا ازالہ صدیوں تک ناممکن ہے۔

اِس دوران وادی گُریز سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں شامل رہی۔ یہ وادی دو نہیں چار حصوں میں تقسیم ہوئی اور آج مختلف انتظامیہ اِس پر کنٹرول رکھتی ہے۔ اِن میں اَپر گُریز (وادی برزل) کو استور میں ضم کردیا گیا آدھے حصے کو مظفرآباد میں ضم کردیا گیا۔ یہاں سیاحت پر بھی کافی پابندی رہی ہے۔ کئی دہائیوں تک یہ علاقہ عام سیاحوں کے لیے بند رہا تاہم 2023ء میں اِس پابندی میں جزوی نرمی دیکھی گئی۔

 برزل درّے کے آدھے راستے پر پناہ گاہیں بھی بنی ہوئی تھیں۔ گلگت ایجنسی میں پائیدار رابطے کے لیے اِس طرح کی چوکیاں بنائی جاتی تھی۔ سرینگر سے گلگت ایجنسی تک ڈاک رنر تازہ دم گھوڑے اور ڈاکیے چوبیس گھنٹے تیار رہتے تھے تاکہ رابطے کا یہ مضبوط نظام سرینگر سے گلگت تک قائم رہ سکے۔ گلگت سے ڈاک سرینگر اور وہاں سے بمبئی جاتی تھی شملہ جانے والی ڈاک کو لنڈن بھیج دی جاتی تھی۔ گلگت ایجنسی کا قیام ایک طرف سے عوامی مفاد میں تھا لیکن اِس خطے کے لیے بیرونی سخت خطرے کا باعث بھی تھا۔

ایجنسی کے قیام کے بعد گلگت میں پہلی بار بازار قائم ہوئے گلگت ایجنسی کے دور میں سرینگر سے مضبوط رابطہ استوار کیا گیا۔ گلگت کے نوجوانوں نے سرینگر سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد بڑے بڑے آفیسر بنے۔ سرینگر سے گلگت تک سڑک بنائی گئی گلگت میں راشن کی فراونی اور دیگر سہولیات دی گئی۔ بے شک ایجنسی مسلط کردہ ایک نظام تھا لیکن ایجنسی کے ساتھ ساتھ حکومت ریاست جموں و کشمیر نے گلگت میں اسکول، رابطہ پل، اسپتال اور دیگر سہولیات کے لیے اپنا بہترین کردار ادا کیا۔

وادیِ بزدل کی دو اہم جھیلیں 
 دومیل جھیل (Domil Lake)

دو میل کے مقام پر دو بڑے نالے آپس میں ملتے ہیں. اِس لیے اِس مقام کو دو میل کہتے ہیں. اِن ہی دو نالوں کا پانی اِس جھیل میں بھی جاتا ہے اِس لیے دومیل جھیل بھی کہا جاتا ہے۔

رینبو جھیل: اِس کو رینبو جھیل اِس لیے کہتے ہیں کیوںکہ یہاں بارش میں میل اور فیمل (Rainbow views) بنتے ہیں اِس لیے رینبو جھیل کہا جاتا ہے۔

دومیل جھیل کو وادی برزل کی حسین ترین مقام کہا جا سکتا ہے۔ یہ جھیل دو سبز پہاڑی ڈھلوانوں کے درمیان واقع ہے۔ اِس جھیل کے پانی کا منبع بھی دو جھیلوں سے نکلنے والا پانی ہے۔ اپنے ماحول اور دل فریب علاقے کے باعث ملکوتی حُسن کی حامل یہ جھیل رقبے کے لحاظ سے کئی جھیلوں سے چھوٹی ہے لیکن دل کشی میں اپنی مثال آپ ہے۔ کارگل وار کے بعد دومیل کے مقام پر اِس جھیل کو بنایا گیا تھا۔ یہ مصنوعی جھیل ہے۔ اِس جھیل کے شفاف پانیوں کی حامل اِس کے کنارے نرم گھاس میں پوشیدہ ہیں۔ پانی اِس قدر شفاف ہے کہ تہہ میں موجود چٹانیں اور آبی پودے نظر آتے ہیں۔

دومیل کی ایک رات 
یہ الاؤ کب تک بجھے گا؟ 
میں نے بائیں جانب بیٹھے ارسلان سے پوچھا۔ 

او باوا جی! سردی بہت ہے۔ میں تو کہتا ہوں کہ نہ ہی بجھے تو بہتر ہے۔ ارسلان نے اپنے خالص پوٹھوہاری لہجے میں کہا۔ 

بقول ارسلان وہ اسلام آباد جیسے جدید شہر میں رہتا ہے مگر مجھے پورا یقین تھا کہ وہ آبائی طور پر اسلام آباد کا نہیں ہوگا۔ اس کا پوٹھوہاری لہجہ اس بات کی گواہی دیتا تھا کہ ارسلان نرم و نازک لڑکا نہیں ہے مگر اس بات میں رتی برابر بھی شک نہیں کہ وہ ایک مکمل طور پر سلجھا ہوا تہذیب یافتہ شخص تھا۔ 

یہاں مجھے الاؤ بجھنے کی جلدی تھی کہ میں اپنے اوپر بنی کہکشاں کو دیکھ سکوں اور نزدیک میرے دوسری جانب دائرے کی صورت میں بیٹھے چند مسٹنڈوں کو اور دو مسٹنڈیوں کو اس بات کی جلدی تھی کہ یہ سب بڑے لوگ کب الاؤ سے اٹھیں اور وہ یہاں الاؤ کے گرد بیٹھ کر اپنی رات کو مزید رنگین کر سکیں۔ راتیں تو ویسے وہ سب اپنی پہلے بھی رنگیں کرچکے تھے مگر دومیل میں کھلے آسمان تلے جب قریب ہی آپ کے ہندوستانی فوج بھی ہو، رنگ رلیاں منانے کا اپنا ہی لطف تھا۔ 

قصہ کچھ یوں تھا ہمارے ساتھ ہی ٹور پر چار عدد بائیس تیئیس سال کے لڑکے تھے، جو کہ میرا گمان ہے کہ تھوڑے بہت کھاتے پیتے بھی تھے۔ سارے نہ سہی مگر ایک دو تو شاید تھا۔ ہمارے ساتھ لاہور کی ایک آنٹی بھی تھیں جن کے ہم راہ ان کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا۔ یہ سب ہی ’’پروفیشنل‘‘ تھے۔ اب پروفیشنل سے زیادہ صاف ستھرا لفظ میں استعمال نہیں کر سکتا۔ آنٹی صاحبہ لکھنئو کی طوائف کے معیار پر مکمل طور پر پورا اترتی تھیں۔ تمیز تہذیب تو جیسے ان پر ختم تھی۔ بولتی تھیں تو مانو منہ سے الفاظ کی بجائے پھول جھڑتے تھے۔

لکھنئو کی طوائف کے پاس جیسے نواب لوگ اپنے بچوں کو تمیز تہذیب سیکھنے کے لیے بھیجتے تھے، بالکل ایسے ہی مجھے گمان ہورہا تھا کہ یہ لڑکے بھی اس خانم صاحبہ کے پاس تمیز تہذیب سیکھنے کے لیے ہی آئے تھے۔ دن کے اوقات میں خانم صاحبہ ان لڑکوں کو تہذیب سکھاتی تھیں اور رات کے اوقات میں جب سب سوجاتے تھے تو کچھ عملی زندگی کے امور سکھانے کے لیے خانم اپنی بیٹیوں کو میدان میں اتارتی۔ بیٹیوں تک تو بات ٹھیک تھی مگر ان کا بیٹا بھی کم نہ تھا۔ 

 ہم اس رات دومیل میں تھے اور کھانے کے بعد ہمارے لیے الاؤ جلا دیا گیا تھا۔ منی مرگ سے آگے ایک گھنا جنگل ہے اور بڑا جنگل ہے۔ اس جنگل کو دیکھ کر واضح اندازہ لگایا جا سکتا ہے جیسے بہت وقت سے یہ دنیا سے کٹا رہا ہو اور حقیقت بھی یہی ہے۔ 2021 سے پہلے یہاں مقامی افراد کے علاوہ کسی دوسرے کو جانے کی اجازت نہ تھی۔ 2021 میں یہ پابندی ہٹی اور سیاحوں کو یہاں دن کے کچھ لمحات گزارنے کی اجازت ملی۔ گزشتہ دو سالوں سے اب یہاں رات کا قیام بھی ممکن ہے۔ ہمارے بڑے ابو کے ہی منظورِنظر ایک دو اشخاص کو یہاں کیمپ سائیٹ لگانے کی اجازت دی گئی ہے۔ سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر آپ صرف یہیں قیام کر سکتے ہیں۔

اپنا کیمپ لگانے کی اجازت فی الحال نہیں مگر یہاں کیمپ سائیٹ اچھی بنائی ہوئی ہے۔ صاف ستھرے اور گرم بستر، مضبوط کیمپ اور کچھ لکڑی کے huts  بھی۔ دومیل میں رات سردی بہت زیادہ نہیں تھی۔ کم از کم جون میں تو نہیں تھی، مگر اتنی ضرور تھی کہ میں ایک جیکٹ پہنے آگ تاپ رہا تھا اور اس آگ کی حدت مجھے سکون دے رہی تھی۔ الاؤ اور آس پاس کی بتیوں کی وجہ سے مجھے آسمان کچھ خاص نظر نہیں آ رہا تھا۔

اس کے مقابلے میں دودھی پت سر جاتے ہوئے ایک رات ملاں کی بستی میں گزارنی پڑی تو آسمان اس قدر خوب صورت تھا کہ یقین نہ آتا تھا۔ ملکی وے اپنے بنفشی رنگ کے ساتھ بالکل واضح تھی۔ مکڑا پہاڑ جاتے ہوئے ایک رات جب پائے میڈوز پر گزاری تھی تو وہاں بھی آسمان اچھا تھا اور ملکی وے نظر آ رہی تھی مگر یہ اتنی روشن اور خوب صورت نہیں تھی جتنی ملاں کی بستی میں تھی۔ دومیل میں تو آسمان بالکل ہی عام سا لگتا تھا مگر ملکی وے کے کچھ کچھ آثار تو تھے۔

شاید الاؤ بند ہونے پر یہ کچھ مزید واضح ہوجاتی۔ تقریباً رات بارہ بجے دومیل کی واحد کیمپنگ سائیٹ کی بتیاں بجھا دی گئیں تو آسمان کچھ مزید واضح دکھائی دیا۔ ہمارے ساتھ ہی ایک الگ دائرہ بنائے وہ چار مسٹنڈے، خانم صاحبہ کی دو بیٹیاں اور ایک ان کا بھائی بیٹھے تھے۔ بڑی والی جس کے چہرے پر ذرا بھی معصومیت نہیں تھی، نے حقے کا ایک لمبا سا کش لیا اور میرے پاس بیٹھے ارسلان کی طرف پھینک دیا۔

شاید وہ ارسلان کو اشارہ دے رہی تھی کہ اب ان سب کو یہاں سے اٹھاؤ۔ ارسلان یہ اشارہ سمجھا ہو یا نہ ہو مگر ہم سب سمجھ گئے۔ سب اپنے اپنے کیمپ میں چلے گئے جب کہ وہ سب لڑکے لڑکیاں اور ہمارا لڑکا بھی وہیں بیٹھے رہے۔ میرے ذہن تو بس ایک ہی بات چل رہی تھی کہ جانے یہ کیسا بے غیرت بھائی ہے جو بہنوں کو غیر لڑکوں میں بیٹھا کر خود بھی حقے کے مزے لے رہا ہے اور ساتھ بہنیں بھی حقے سے لطف اندوز ہورہی ہیں۔ 

چھوٹی والی جس کے چہرے پر مجھے معصومیت کے کچھ کچھ آثار معلوم ہوتے تھے، بعد میں پتا چلا کہ وہ تو سب سے تیز تھی۔ اب صبح ہوئی تو وہ سب لڑکے بشمول ان کی لڑکیوں کے بھائی کے سب نہانے کے لیے بھاگ رہے تھے۔ شکر ہے ارسلان نہیں نہایا ورنہ کم از کم میں ارسلان کو وہیں دومیل میں لیتر پھیر دیتا۔ میری ٹیم نے اپنا اپنا سامان پکڑا اور جیپ میں بیٹھ کر دومیل کی جوہڑ نما دو جھیلوں کو دیکھنے کے نکل پڑے۔

وادیِ برزل میں ایک مقام ایسا ہے جہاں ’’دو‘‘ نالے ’’میل‘‘ کرتے ہیں یعنی ملتے ہیں، اس لیے اسے دومیل کہا جاتا ہے۔ بلاشبہہ منی مرگ اور دومیل بہت خوب صورت ہیں اور ان کی خوب صورت کی میرے نزدیک واحد وجہ یہ ہے کہ دونوں علاقے دنیا سے کٹے رہے ہیں۔ 2021 سے سیاحوں کو یہاں جانے کی اجازت ملی ہے۔ اس لیے یہاں کی فضاء، آب شاریں سب اچھا ہے مگر یقین مانیں دومیل سے کہیں زیادہ خوب صورت ہماری وادیِ روپل ہے۔ دومیل میں کمیپ سائیٹ کے پاس ہی دو بچہ جھیلیں ہیں۔ ایک کرسٹل لیک کہلاتی ہے اور دوسری رینبو لیک۔ رینبو لیک کا نام پہلے Yeldram lake تھا مگر بارش کے بعد واضح طور پر یہاں قوسِ قزح بنتی تھی، اس لیے اسے رینبو لیک کا نام دے دیا تھا۔ استور کے ہی کچھ نوجوان دومیل کی پہاڑیوں کے بارے بہت جذباتی دیکھے۔ بقول ان کے جب کارگل کی جنگ شروع ہوئی تو پاک فوج کے کچھ مجاہدین بہت آگے تک چلے گئے تھے۔

انھوں نے نو چوٹیوں پر قبضہ کرلیا تھا اور آگے کی جانب پیش قدمی بھی جاری تھی کہ سول حکومت نے مشرف انکل کا ساتھ نہ دیا اور امریکا بہادر کے کہنے پر اپنی افواج کو فوری طور پر واپس بلا لیا۔ خوش قسمتی سے میری ملاقات وہاں ٹورازم پولیس کے ایک سنیئر شخص سے ہوئی۔ وہ چوں کہ مقامی تھے، اس لیے علاقے کی معلومات رکھتے تھے۔ انھوں نے صاف بتایا کہ ہمارے پاس بھارت کی کوئی چوٹی نہیں۔ کارگل جنگ میں ابتدائی طور پر پاکستان کو کام یابی ضرور ملی مگر بنا کمک کے یہ مجاہدین نما فوجی کتنی دیر لڑتے۔ سیز فائر کے بعد جب پاکستان فوجی واپس آ رہے تھے تو بھارت نے اپنے ابتدائی نقصان کا بدلہ ہمارے فوجیوں سے لیا۔ دونوں ممالک کی افواج واپس اپنی پوزیشن پر آگئیں۔ 

پاکستان اور بھارت کے مابین ہونے والی تمام جنگوں کی واحد وجہ سرحدوں کا تعین نہ ہونا ہے، جب کہ پاکستان اور چین کے مابین خوش گوار تعلقات کی اصل وجہ بھی یہی ہے کہ دونوں ممالک نے اپنی بین الاقوامی سرحدوں کا تعین کرلیا۔ 

2 مارچ 1963 کو پاکستان (وزیرخارجہ ذوالفقار علی بھٹو) اور چین (وزیراعظم چیئِن یِی) کے درمیان باہمی سرحد طے کرنے کا معاہدہ ہوا، جسے ’’سرحدی معاہدہ‘‘ یا sino pakistan frontier agreement کہا جاتا ہے۔ اس معاہدے کے تحت پاکستان نے تقریباً 5,180 مربع کلومیٹر علاقہ چین کو دیا، جو کہ گلگت بلتستان کے علاقے میں واقع تھا۔ یہ علاقہ شکسگام ویلی (Shaksgam Valley) کہلاتا ہے۔

یہ علاقہ اصل میں ریاست جموں و کشمیر کا حصہ تھا، جس پر پاکستان نے 1947 کے بعد کنٹرول حاصل کیا۔ شکسگام ویلی، جسے Trans-Karakoram Tract بھی کہا جاتا ہے، کو پاکستان نے چین کو دے دیا تاکہ دونوں ممالک کے درمیان سرحد کا تعین ہوسکے۔ چین نے بھی اس معاہدے میں پاکستان کے ساتھ اپنی سرحد تسلیم کی، اور دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری آئی۔

یہ معاہدہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے علاقے پر بھارت کی دعوے داری کی وجہ سے متنازع سمجھا جاتا ہے، اور بھارت اس معاہدے کو تسلیم نہیں کرتا۔ اس معاہدے کے مطابق پاکستان نے تقریباً 5,180 مربع کلومیٹر شکسگام ویلی (کاراکورم کے شمال مشرق میں) کا علاقہ چین کے حوالے کیا تھا۔ اس میں پاکستان نے شکسگام وادی کو چین کے حوالے کیا تاکہ دونوں ممالک کے درمیان سرحدی اختلافات ختم کیے جا سکیں اور شاہراہِ قراقرم کی تعمیر کے لیے راستہ کھلے ۔ معاہدے کی ایک شق (Article VI) میں ذکر ہے کہ کشمیر کا حتمی فیصلہ ہونے پر سرحدی معاہدے کو دوبارہ دیکھا جا سکتا ہے۔

بھارت نے کبھی بھی اس معاہدے کو تسلیم نہیں کیا کیوں کہ اس کے مطابق وادیِ شکسگام بھارت کے ریاست جموں و کشمیر کا قانونی حصہ ہے۔ بھارت نے اسے ایک ’’غیرقانونی‘‘ اقدام قرار دیا اور چین سمیت پاکستان کو احتجاج کیا ہے۔

بھارتی پارلیمنٹ میں وزیرخارجہ R.L. Bhatia  نے کہا کہ پاکستان نے 5,120 مربع کلومیٹر غیرقانونی طور پر چین کو دے دیا تھا، جب کہ چین نے تقریباً اتنا ہی رقبہ پاکستان کو واپس دیا (پہاڑی چراگاہ وغیرہ)۔ 

واضح رہے کہ پاکستان اور چین کے مطابق پاکستان نے واقعی چین کو تقریباً 5300 مربع کلومیٹر کا علاقہ دیا جب کہ چین نے تقریباً 1944مربع کلومیٹر کا علاقہ پاکستان کو واپس دیا جنھیں ہنزہ کی پہاڑی چراگاہیں کہا جاتا ہے۔

منی مرگ کی مینی ایک حقیقت یا افسانہ 

اب یہ جو اہلِ کتاب ہیں جو آج بھی ہم مسلمانوں سے تعداد میں بہت زیادہ ہیں، خدا ان کے ساتھ کل قیامت کے دن کیا معاملہ کرے گا؟ میرا تو گمان یہی ہے کہ خدا ان تمام کو اُس علم کے مطابق قیامت کے روز پرکھے گا جو علم انھیں دیا گیا ہے۔

ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم مینی کے بارے یہ گمان کریں کہ خدا کی مخلوق سے بہت زیادہ محبت کرنے والی کو وہ آگ میں ڈال دے گا۔ یقیناً خدا مینی کو قیامت کے روز اس علم کے مطابق ہی پرکھے گا جتنا علم اسے عطا کیا گیا تھا یا جتنا علم مینی نے حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اب یہ مینی کون ہے جس کا تذکرہ میں آج لے کر بیٹھ گیا ہوں۔ جس کے سرہانے کھڑے ہونے کی میری خواہش شدید تر تھی۔ یقیناً یہ کوئی عام خاتون تو نہ تھی۔ خدا کے چُنے ہوئے لوگوں میں سے تھی۔

 بات ذرا پرانی ہے مگر اتنی پرانی بھی نہیں۔ زیادہ سے زیادہ نوے برس پرانی بات ہو گی جب کشمیر اور ہمارا آج کا گلگت بلتستان کہلانے والا علاقہ ایک ہی خطہ تھا۔ جنت نظیر خطہ۔ حکومت تو یہاں بہت پہلے سے ہندؤ ہی کرتے آ رہے تھے۔

 تھوڑا مزید پیچھے جا کر کشمیر کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ کشمیر بلتستان کا خطہ برصغیر پاک و ہند کا حصہ ہی نہ تھا۔ یہ ایک الگ تھلگ علاقہ تھا۔ وہ تو نہ جانے کب اور کیوں کسی مشیر نے اکبر کے کان میں بات ڈالی کہ حضورِاعلیٰ اوپر کو ایک علاقہ کشمیر نامی بھی ہے، ذرا اس طرف بھی نظرِکرم کریں۔ اکبر نے کشمیر پر تین حملے کیے تب جا کر کشمیر برصغیر کا حصہ بنا۔ (یہی وجہ ہے کہ جب برصغیر تقسیم ہوا تو کشمیریوں نے اپنے لیے ایک الگ وطن کا مطالبہ کیا جو کہ آج تک قائم ہے)

 بات ہے اس ایک گاؤں کی جو سری نگر اور بلتستان کے درمیان کہیں تجارتی راہ داری پر تھا۔ گاؤں کی سب سے اچھی بات یہ تھی کہ سردیوں میں بھی اس کا رابطہ باقی علاقوں سے برقرار رہتا تھا۔ علاقے میں خوب صورتی تھی، پانی تھا، کیا کچھ نہیں تھا۔ انگریزوں کے دور میں بھی کشمیر کے ہندو راجا کی طرف سے ایک انگریز افسر تعینات کیا گیا جس کی بیوی مینی بھی اس کے ہمراہ تھی۔

مینی خدا کے منتخب کردہ بندوں میں سے تھی۔ انگریز تھی، حکومتی کوئی ذمہ داری نہ تھی مگر پھر بھی اس نے اپنے آپ کو علاقے کی خواتین کے لیے وقف کر دیا۔ وہ ان کے صحت کے مسائل، خاص کر زچہ و بچہ کے معاملات احسن طریقے سے دیکھتی اور علاقے کے لوگوں کی دعائیں سمیٹتی۔ اسی دوران دوسری جنگِ عظیم بھی ہوئی۔ مینی کا انگریز شوہر بہت بار اپنی حکومتی ذمہ داریوں کی وجہ سے علاقہ سے باہر بھی گیا مگر مینی اسی گاؤں میں رہی اور لوگوں کی خدمت کرتی رہی۔ پھر نہ جانے مینی کو کیا بیماری ہوئی کہ چند ہی دنوں میں مینی دنیا سے رخصت ہوگئی۔ مینی کے غم میں سارا گاؤں دکھی تھا۔ مینی عیسیٰ علیہ السلام کے پیروکاروں میں سے تھی۔

اس لیے عیسائی مذہب کے مطابق مینی کو پورے گاؤں نے مل کر دفن کیا۔ نہ جانے گاؤں کا پہلا نام کیا تھا مگر مینی کے جانے کے بعد سب گاؤں والوں نے علاقے کا نام تبدیل کر کے اسے ’’مینی مرگ‘‘ کردیا جو بعد میں منی مرگ بنا۔ یعنی وہ جگہ جہاں مینی کا انتقال ہوا تھا۔

 تو میں منی مرگ میں تھا۔ مینی کے گاؤں میں تھا اور صرف اور صرف مینی کو خراجِ تحسین پیش کرنا چاہتا تھا کہ کیسے اس خدا کی چُنی ہوئی شخصیت نے میرے وطن کے باسیوں کی خدمت کی۔ میں کیسا بدقسمت تھا کہ مینی کے گاؤں میں تو تھا مگر مینی کے سرہانے کھڑا ہونا مجھے نصیب نہ ہوا۔ میرا راہ نما مجھے مینی کے پاس لے جانے سے صاف انکاری تھا۔

کہتا تھا کہ مینی کے پاس جانے کا وقت اس کے پاس نہیں اور پھر شاید یہ میری مینی کے پاس جانے کی تڑپ تھی کہ اُس منحوس کی جیپ ہی خراب ہوگئی مگر اس کی جیپ خراب ہونے سے مجھے کیا حاصل ہوا۔ میرے سینے میں مینی سے ملنے کی جو تڑپ تھی، وہ تڑپ تو ویسے کی ویسی ہی رہی۔ نہ جانے مینی کو میرے اس کے قریب ہونے کی خبر ہوئی بھی تھی یا نہیں مگر ایک بات تو طے ہے کہ بھلے سے ہی مجھے مینی کے سرہانے کھڑا ہونا نصیب نہ ہوا ہو مگر میں نے کم از کم اپنی مینی کی خوشبو کو پا لیا تھا۔ مینی، ڈاکٹر روتھ فاؤ جیسے بے شمار لوگوں کو سلام جو بھلے ہی میری زمین کے نہ تھے مگر پھر بھی انھوں نے میرے وطن کے باسیوں کی بہت خدمت کی۔ 

………… 
اب ساجد منان گلریزی کی زبانی دوسری طرف کا موقف بھی جان لیں:

منی مرگ کی قبر ایک جھوٹ کا پلندہ

’’مجھے بھی کچھ عرصہ قبل اِس متعلق تحقیق کا شوق پیدا ہوا تو منی مرگ کے ایک دوست سے رابطہ کیا تو انہوں نے ایک پورا بورڈ ہی واٹس ایپ کیا اور کہا جناب یہ لیں ہماری منی مرگ کی تاریخ یہ ہے۔۔۔بلکہ ایک قبر کی تصویر بھی بھیج دی۔ اُس بورڈ میں بھی درج ہے لیکن یہ ایک بہت بڑا جھوٹ ہے آج کل لکھی جانے والی کچھ کتابوں میں بھی منی مرگ کی وجہ تسمیہ یہی درج کی گی ہے، جسے منی نام کی ایک عورت سے جوڑا گیا ہے جس کا 1945ء میں یعنی آج سے 78 سال قبل اس مقام پر انتقال ہوا تھا اور ایک ڈاک بابو سے منسوب کرکے کہانی کو مرچ مسالا لگایا گیا ہے، لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے۔ منی مرگ کا نام آج سے ٹھیک 150 سال قبل 1875ء میں ایک مغربی جغرافیہ داں نے اپنی کتاب میں قلم بند کیا ہے اُن دنوں وہ گلگت میں موجود تھا اور اسی راستے سفر کیا تھا۔

میری مطالعہ شدہ کتب میں 1945ء سے قبل 18 کتابوں میں منی مرگ نام استعمال ہوا ہے۔ 1900ء سے قبل 8 اہم کتابوں اور کئی برٹش و جموں و کشمیر کی سرکاری رپوٹس میں منی مرگ نام تذکرہ ہوا ہے۔ ایک کتاب جو 1894ء میں شایع، ہوئی تھی اُس میں منی مرگ کا 41 بار تذکرہ کیا گیا ہے۔ 1945 والی کہانی بالکل جھوٹی ہے۔ 16 اگست 1898ء کو ایک انگریز جو ڈائریکٹر باٹنیکل ڈیپارٹمنٹ آف نادرن انڈیا کا آفیسر تھا، اس نے منی مرگ کے متعلق تفصیلی تذکرہ کیا ہے۔ اِس کے علاوہ بھی کئی اہم کتابوں میں تذکرہ موجود ہے۔ باقی پھر کبھی لکھیں گے۔ میں نے اس متعلق بہت سا مواد بھی شئیر کیا ہوا ہے۔ یہ سب ایک مسلط شدہ ہے۔ 

ہم ترشنگ پہنچے تو نانگا پربت پر شام بس اترنے ہی والی تھی۔

ہم ترشنگ پہنچے تو جیپ ایک پرانے مگر اچھے ہوٹل کے سامنے رک گئی۔ اندر پہنچے تو ایک خوش گوار حیرت ہماری منتظر تھی۔ ہوٹل کا نام نانگا پربت ٹورسٹ کاٹیج تھا جسے 1984 میں ترشنگ کے ہی محمد اشرف صاحب نے بنایا تھا۔ یہ وہی ہوٹل تھا جہاں تارڑ صاحب اور عمران خان بھی قیام کرچکے ہیں۔ تارڑ صاحب نے اس ہوٹل کے جس کمرے میں قیام کیا تھا وہ 102 تھا جو اب سڑک سے بہت نیچے ہوچکا تھا۔ اس کمرے میں ایک کھڑکی تھی جو نانگا پربت کی جانب کھلتی تھی۔ سڑک کے اونچے ہونے کی وجہ سے اس کھڑکی کو اب بند کردیا گیا ہے۔ ہمارا ٹور بنیادی طور پر صرف ترشنگ تک ہی تھا مگر میں نے اپنے ہم خیال دوستوں کو ورغلایا کہ نانگا پربت جو یہاں سے نظر آتا ہے وہ تو صرف اور صرف ایک فریب ہے۔

 ہم صبح سویرے اٹھے تو نانگا پربت کے رنگ ہی نرالے تھے۔ مکمل سکوت، سورج کی کرنیں جب نانگا پربت پر پڑتی تھیں تو یہ سونے کی طرح چمکنے لگتا تھا۔ نانگا پربت کی جھیل سے آنے والے پانی یہاں بہت نیچے رہ جاتے ہیں، اس لیے ان پانیوں کی آواز آپ کے سکوت میں خلل پیدا نہیں کرتی۔ میں ہوٹل کے لان میں بیٹھا تصاویر بنوا رہا تھا اور میرے سامنے دنیا کا نواں بڑا پہاڑ کھڑا تھا جس کی اونچائی 8126 میٹر ہے۔ اس کے دائیں جانب گنالو کی چوٹی ہے جس کی اونچائی سات ہزار کے قریب ہے۔ نانگا پربت کے بائیں جانب تین خوب صورت چوٹیاں ساتھ ساتھ نظر آتی ہیں جنھیں سلور پیکس کہا جاتا ہے۔ وجہ تسمیہ شاید یہ ہو کہ دھوپ جب ان پر پڑتی ہے تو یہ چاندی کی طرح چمکنے لگتی ہیں۔ 

میں تصاویر بنوا رہا تھا کہ اتنے میں ایک بوڑھے سے آدمی ہوٹل کے لان میں چہل قدمی کرتے ہوئے نظر آئے۔ میرے خیال میں تو یہ محمد اشرف صاحب ہی ہونے چاہیے تھے۔ میں ان کے قریب گیا اور ان سے ہوٹل کی پرانی یادوں کو تازہ کرنے لگا۔ اشرف صاحب پرانے ترشنگ کے بارے بتانے لگے جب سڑک تو اتنی اچھی نہیں تھی مگر ترشنگ میں ہر طرف غیرملکی ہی نظر آتے تھے اور اپنے پاکستانی بس اِکا دُکا ہی ہوتے تھے۔ آج بھی پاکستان میں سے زیادہ غیرملکی سیاح وادیِ روپل میں ہی آپ کو نظر آتی ہے۔ 

میں اشرف صاحب سے ابھی بات کر ہی رہا تھا کہ مس فوزیہ اور مس سارہ بھی وہاں پہنچ گئیں۔ سب ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ ان کی رات کیسی گزری۔ معلوم ہوا کہ گذشتہ رات ان ہی لڑکوں نے سب کو بہت تنگ کیا تھا۔ کبھی خواہ مخواہ کا شوروغل کرتے اور کبھی دروازے پیٹ کر بھاگ جاتے۔ نہ جانے آج کل کے والدین بچوں کو اخلاقی اقدار کیوں نہیں سکھاتے۔ میں چوں کہ نہا دھو کر گھوڑے بیچ کر سویا پڑا تھا، اس لیے مجھے کچھ خبر نہ ہو سکی کہ باہر کیا چل رہا ہے۔ اتنے میں باورچی کی آواز آئی کہ صاحب لوگ آپ کا ناشتہ تیار ہے۔ دو نان، تین چار ٹوسٹ ہمارے سامنے رکھ دیے گئے۔ میں نے دو نان کے ٹکڑوں کو چائے میں ڈبو کر حلق میں اتارا اور اپنا ناشتہ مکمل کرنے کا اعلان کردیا۔

 نانگا پربت کا مقامی نام تو ننگا پہاڑ ہے مگر دیا مورئی اور قاتل چوٹی سمیت بہت سے ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ قاتل چوٹی اس لیے کہ اس پہاڑ کی برفوں میں بہت سے کوہ پیما دفن ہیں۔ بلاشبہہ ترشنگ ایک خوب صورت گاؤں ہے۔ یہاں بلکہ پوری وادیِ روپل میں ایک عجب بات دیکھی کہ درختوں کے نیچے والے حصے کو کپڑے سے باندھ دیتے ہیں۔ استفسار کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ بکریاں درخت کی چھال نہ اتار سکیں۔ درخت کی چھال ایسے ہی ہے جیسے ہماری جلد۔ اگر درخت کی چھال اتر گئی تو درخت بھی مردہ ہوجاتا ہے۔ 

جیپ کا سفر شروع ہوا تو کبھی نانگا پربت ہمارے ساتھ ساتھ سفر کرنے لگتا تو کبھی کسی پہاڑ کی اوٹ میں چھپ جاتا۔ نہ صرف ترشنگ بلکہ وادیِ روپل ساری کی ساری ہی خوب صورت ہے خاص کر بالائی روپل۔ یوں سمجھ لیں کہ وادیِ روپل کی اصل خوب صورتی ہی ترشنگ کے بعد شروع ہوتی ہے۔ لاتوبو سے آنے والے پانی اب تقریباً ہمارے ساتھ ساتھ ہی چل رہے تھے کہ اچانک سے ایک جگہ ایسا تنگ راستہ آیا کہ ہم سب کی ہلکی پھلکی چیخیں تو نکل ہی گئیں۔

ڈرائیور بھائی سے درخواست کی کہ بھائی اپنی جیپ پہاڑ کے ساتھ رگڑ دے، پیسے ہم دے دیں گے، بس جیپ ذرا بھی کھائی کی جانب نہ کرنا۔ راستے میں ایک جگہ ایک بڑی سی کرین راستہ صاف کرنے میں مصروف تھی۔ معلوم ہوتا تھا کہ تازہ تازہ لینڈ سلائیڈنگ ہوئی ہے۔ یہ علاقہ زیادہ تر بارش کی ہی زد میں رہتا ہے مگر جون میں زیادہ تر موسم صاف ہوتا ہے لیکن نانگا پربت پر آپ کو بادل ہی ملتے ہیں۔ روپل میں آپ کو سڑک کے دونوں جانب خوب صورت درخت اور کھیت نظر آتے ہیں۔ میں نے شمالی علاقہ جات کے کسی بھی کھیت میں آج تک کسی مرد کو کام کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ کھیتوں میں صرف خواتین کام کرتی ہیں اور ان کی حفاظت کے لیے چند بابے وہیں کھیتوں میں موجود ہوتے ہیں اور آپس میں گپ شپ کرتے ہیں۔ مرد شاید پنجاب میں ملازمت کرتے ہیں اور کچھ وہیں ہوٹلوں اور دکانوں میں۔ کبھی کسی زمانے میں بالائی روپل بالکل ویران تھا مگر وہاں دو چیزیں ضرور تھیں۔

ایک نانگا پربت اور دوسرا سکون۔ اب یہاں کچھ کچھ ہوٹل بن گئے ہیں۔ ہم ایک تنگ سے سڑک سے گزر رہے تھے کہ اچانک جیپ والے نے بریک لگا دیا۔ سامنے ایک کپڑے کا بینر لگا تھا جس پر نانگا پربت بیس کیمپ لکھا تھا۔ اسی بینر کے ساتھ گزرے برس میں نے تصویر بنوائی تھی۔ فرق صرف یہ تھا کہ گزرے سال یہ بالکل نیا تھا مگر اب تقریباً پھٹ چکا تھا۔

 میں جیپ سے باہر نکلا تو کیمپ سائیٹ کا مالک مجھے پہچان کر میری طرف آ گیا۔ علیک سلیک کے بعد اس نے چائے کی گزارش کی جسے شکریہ کے ساتھ واپسی پر رکھ دیا گیا۔ ارسلان اور طارق صاحب فوراً ہی ٹریک پر چل نکلے۔ میں نے مس فوزیہ اور مس سارہ کے لیے دو گھوڑے لیے اور خود پیچھے آرام و سکون سے میوزک سنتا ہوا چلنے لگا۔ میں چوں کہ ابھی پچھلے برس ہی سارا علاقہ دیکھ چکا تھا، اس لیے اکیلا ہی چلتا رہا جب کہ باقی لوگ آگے تصاویر بنواتے ہوئے جا رہے تھے۔

میرے پاس ان کی مناظر کی اتنی تصاویر تھیں کہ پھر سے بنانے کو جی نہ چاہتا تھا۔ اس سارے راستے اور مناظر پر میں پہلے بھی اپنے مضمون ’’بادلوں میں لپٹا ہوا نانگا پربت‘‘ پر تفصیل سے لکھ چکا ہوں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بیس کیمپ سے ہرلنگ کوفل جاتے ہوئے شروع کی چڑھائی بہت بری ہے بلکہ کچھ زیادہ ہی بری ہے۔ چڑھائی اتنی کتی ہے کہ اسے سور چڑھائی کہنا زیادہ مناسب ہو گا مگر اچھی بات یہ ہے کہ اس چڑھائی کے بعد ہرلنگ کوفل تک راستہ بالکل سیدھا سیدھا ہی ہے۔ آپ تنہا بنا کسی گائیڈ کے بیس کیمپ سے ہرلنگ کوفل تک جا سکتے ہیں۔ صرف ایک ہی پگڈنڈی ہے اور بس اسی پر چلنا ہے۔

 ہرلنگ کوفل آیا تو میری جان میں جان آئی کیوں کہ چڑھائی ختم ہوچکی تھی۔ میں نے سوچا کہ اب نانگا پربت کے سامنے بیٹھ کر چائے پکوڑے کھاؤں گا مگر مجھ سے آگے چلنے والے اپنی ہی دنیا میں مگن اور نانگا پربت کے نشے میں آگے سے آگے ہی بڑھتے جا رہے تھے۔ ہرلنگ کوفل میں جہاں کیمپ سائیٹ ہے، وہیں سے اگر آپ بائیں جانب کو چڑھائی چڑھنا شروع کردیں تو ٹھیک چار گھٹنے کے بعد آپ نانگا پربت کی جھیل لاتوبو کے سامنے کھڑے ہوں گے۔

اب حالات کچھ یوں تھے کہ ہماری گھوڑے والی دونوں خواتین نے گھوڑے والے کو مزید کچھ رقم دیر دے کر کہا کہ بھائی بس چلتے جاؤ اور اس وقت تک چلتے جاؤ جب تک کہ یہ زمیں ختم نہ ہوجائے یا زمین اور نانگا پربت کے درمیان کوئی دراڑ نہ آ جائے۔ گھوڑوں والوں کو تو پیسے چاہیے تھے، انھوں نے پیسے جیب میں ڈالے اور ہرلنگ کوفل کی چڑھائیاں چڑھنے لگے۔ میری جو پہلے ہی حالت خراب تھی، مزید خراب ہونے لگی مگر خوشی اس بات کی تھی کہ چلو اسی بہانے میں ہرلنگ کوفل کا یہ والا کونا بھی دیکھ لوں گا۔ گزرے برس جب میں یہاں آیا تھا تو پیچھے سے ہی لاتوبو جھیل کے لیے مڑ گیا تھا۔ نانگا پربت کے ماتھے پر روئی کی طرح کے بادل کسی جھومر کی تشبیہ دے رہے تھے۔

 ہرلنگ کوفل کا آخری کونا نہ جانے کیوں دور اور بہت دور ہوتا جا رہا تھا یا پھر شاید میری رفتار کم تھی۔ ہماری دونوں خواتین آخری کونے سے نانگا پربت کو سلام کر کے واپس آ رہی تھیں۔ میں نے مس سارہ کو گھوڑے سے اتارا، انھیں وہیں بٹھایا اور خود گھوڑے پر سوار ہو گیا۔ گھوڑا جہاں تک جا سکتا تھا، چلا گیا مگر ابھی زمین کچھ باقی تھی۔ ارسلان اور طارق بھائی ہرلنگ کوفل کے بلند ترین مقام پر پہنچ چکے ہیں۔

میں بھی چار ٹانگوں پر ہوگیا اور رفتہ رفتہ نانگا پربت چڑھنے لگا۔ ہم تینوں اس وقت ہرلنگ کوفل کے بلند ترین مقام پر تھے جہاں سے ہمیں پورا گلیشیئر صاف نظر آ رہا تھا۔ ہوا زیادہ تیز نہ تھی مگر پھر بھی اتنی تو تھی کہ ہم سے باریک سی پگڈنڈی پر کھڑا ہوا نہ جاتا تھا۔ ہمارے سامنے ایک ننگا پہاڑ کھڑا تھا جسے مقامی آبادی شل مکھی کہتی ہے۔ شل مکھی یعنی سو چہروں والا پہاڑ۔ اس کا ایک چہرہ چلاس سے دکھائی دیتا ہے، دوسرا جگلوٹ سے، تیسرا ترشنگ سے، چوتھا بیال کیمپ سے اور پتا نہیں کہاں کہاں سے آپ دنیا کے اس عظیم اور نواں بڑے پہاڑ کا دیدار کر سکتے ہیں۔

نانگا پربت کے روپل چہرے کی اصل وجہ شہرت چوٹی سے لے کر نیچے بیس کیمپ تک کا وہ چٹانی چہرہ ہے جو ساڑھے چار ہزار میٹر بلند ہے۔ دنیا میں کسی جگہ کسی بھی پہاڑی سلسلے میں ایسا کوئی مقام نہیں جہاں آپ کھڑے ہوں اور آپ کے سامنے ایک چٹان ساڑھے چار ہزار میٹر کی اونچائی پر ہو۔ یہ ایک ناقابل یقین منظر ہے اور ہم تینوں اس وقت ایک ناقابلِ یقین منظر کے سامنے کھڑے تھے۔ ہم تینوں ہرلنگ کوفل کی اترائی اترنے لگے۔

ہم سب ایک ناقابلِ یقین منظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر واپس آ رہے تھے۔ ہمارے پیچھے نانگا پربت اپنی بھرپور عظمت کے ساتھ مسکرا رہا تھا۔ ہم سب بیس کیمپ واپس پہنچ چکے تھے۔ جیپ میں واپس بیٹھتے ہی میں نے اپنے بوٹوں کے تسمے کھول دیے۔ اب مجھے شل مکھی کے خواب نہیں آتے، جن کھلی آنکھوں نے شل مکھی کو اتنے قریب سے دو بار دیکھ لیا ہو، وہ آنکھیں بند کر کے اسے کیوں دیکھنا چاہے گا۔ میں تیسری بار پھر ہرلنگ کوفل آنے کا ارادہ رکھتا تھا۔

اپنے ان ہی سب دوستوں کے ساتھ میں لاتوبو جھیل پار کر کے نانگا پربت کے سائے میں کیمپ کرنا چاہتا ہوں، ایک رات وہاں گزارنا چاہتا ہوں اور پھر قریب ہی سوئے ہوئے ان کوہ پیماؤں کی قبروں کے سرہانے کھڑے ہو کر ان کی عظمت کو سلام پیش کرنا چاہتا ہوں جنھوں نے اپنے شوق کی خاطر اپنی جان کی بازی لگا دی مگر اپنے مرنے سے پہلے اپنے شوق کو مرنے نہیں دیا۔

Similar Posts