فرانس کے تاریخی لوور میوزیم میں ہونے والی شاہی جواہرات کی چوری نے دنیا بھر کو حیران کر دیا۔ مگر معروف امریکی مصنفہ سلون کراسلی کے نزدیک یہ واقعہ صرف ایک چوری نہیں بلکہ عصرِ حاضر کا ایک ثقافتی اور نفسیاتی مظہر ہے۔
یہ محض ایک واردات نہیں تھی بلکہ ایک ایسا واقعہ جو لمحوں میں خبروں سے نکل کر سوشل میڈیا، میمز اور تجسس کا حصہ بن گیا۔
مصنفہ سلون کراسلی اس چوری کو کس طرح دیکھتی ہیں اپنے ایک حالیہ مضمون میں اس کا اظہار کر رہی ہیں۔
انہوں نے نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والے اپنے مضمون ”وائے ایوری ون اِز اوبسیسڈ وِد دی لوور ہیسٹ“ جسے اردو میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ ’کیوں لوور کی چوری نے سب کو اپنے سحر میں جکڑ لیا ہے؟‘ میں اس واردات کو ایک ایسی کہانی قرار دیا ہے جو جرم سے زیادہ انسانی تجسس، احساس اور ڈیجیٹل دنیا کے تیز ردعمل کی نمائندہ ہے۔
کراسلی اس واقعے کو انٹرنیٹ کے دور کا ایک ”پریشیئس اسٹون“ کہتی ہیں۔ ایک ایسا واقعہ جس نے لوگوں کو مجرمانہ حقیقت اور فکشن کے سنگم میں باندھ دیا۔
دن کے وقت نقاب پوش افراد کا کرین کے ذریعے شیشے توڑ کر شاہی زیورات چرا لینا ایک سینمائی منظرنامہ تخلیق کرتا ہے۔ یہ واقعہ حقیقت میں پیش آیا، مگر اس کا اثر کسی فلمی کہانی سے کم نہیں۔
مصنفہ کے مطابق، لوور ہیسٹ نے آن لائن دنیا میں ایک عجیب کشش پیدا کر دی ہے۔ سوشل میڈیا پر لطیفے، میمز اور ویڈیوز کے ذریعے اس واقعے کو نہ صرف سنجیدگی سے بلکہ مزاحیہ انداز میں بھی لیا گیا۔
ایک بلی جو چور کے لباس میں دکھائی دیتی ہے، یا ”لوور ہیسٹ چیلنج“ یعنی پیرس کے لوور میوزیم کی چوری سے متاثر سوشل میڈیا پر اظہار جیسے رجحانات اس بات کی علامت ہیں کہ کہ لوگ اس چوری کو سنجیدہ جرم نہیں بلکہ ایک دل چسپ منظر کے طور پر دیکھ رہے ہیں، جیسے ان کے دل میں اس کے لیے ایک نرم سا گوشہ ہو۔
ایک اجتماعی فرار کی کہانی
کراسلی اپنے مضمون میں لکھتی ہیں کہ یہ واقعہ دراصل امریکی سماج کے ذہنی بوجھ اور سیاسی دباؤ سے فرار کا ایک راستہ بن گیا۔
ان کے مطابق، لوگ حقیقی بحرانوں، جیسے سیاسی تقسیم، مہنگائی یا جنگی تنازعات سے زیادہ ایسی کہانیوں میں دلچسپی لیتے ہیں جو سمجھ میں آنے والی، مگر غیر معمولی ہوں۔
وہ بات کر رہی ہیں کہ عوام شہری طبقات، سیاسی کشمکش، معاشی دباؤ، اور خبروں کے شور سے ذہنی طور پر تھک چکے ہیں۔ لہٰذا شاہی زیورات کی چوری جیسی کہانیاں ان کے لیے ایک مینٹل اسکیپ یا ذہنی فرار کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ وہ لوور ہیسٹ یا فرانسیسی شاہی خاندان کے جواہرات اور دنیا کے نایاب ترین ہیروں کی چوری کی وردات کو ایک جذباتی نکاس کا ذریعہ قرار دیتی ہیں۔ ایسا واقعہ جو بوجھل روزمرہ زندگی سے فرار یا آزادی دیتا ہے
نیویارک کی زندگی اور ایک نفسیاتی مماثلت
مصنفہ کراسلی اپنی نیویارک کی زندگی کا حوالہ دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ ایسے واقعات شہری زندگی میں موسمِ خزاں کی پہلی ہوا کی مانند محسوس ہوتے ہیں۔ تازگی، حیرت اور تھوڑی سی بے چینی کا امتزاج۔ ان کے مطابق، یہ کہانیاں ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ روزمرہ کے دباؤ کے بیچ بھی حیرت کا احساس زندہ ہے۔
فرانس، رومانویت اور لوور کی نئی علامت
مصنفہ مضمون کے اختتام پر کہتی ہیں کہ لوور میوزیم کا فرانس کے ساتھ ’تاریخی اور رومانوی تعلق‘ اس چوری کے ذریعے ایک نئے انداز میں زندہ ہو گیا ہے۔ یہ واقعہ نہ صرف سیکیورٹی کی ناکامی کی کہانی ہے بلکہ ایک ’ثقافتی علامت‘ بھی بن چکا ہے۔ ایک ایسا منظر جس نے فن، تاریخ، اور موجودہ دور کے تیز رفتار میڈیا کو ایک لڑی میں جوڑ دیا ہے۔
