ماسکو میں روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے اعلان کیا ہے کہ روس نے دنیا کے سب سے طاقتور زیرِ آب ایٹمی ہتھیار ”پوسائیڈون“ کا کامیاب تجربہ کر لیا ہے، جو کسی بھی دفاعی نظام سے روکا نہیں جا سکتا۔ پیوٹن نے کہا کہ اس ہتھیار کی رفتار، گہرائی میں مار اور تباہ کن صلاحیت کا دنیا میں کوئی ثانی نہیں۔
روسی صدر نے یہ دعویٰ ماسکو کے ایک فوجی اسپتال کے دورے کے دوران کیا، جہاں انہوں نے یوکرین جنگ میں زخمی ہونے والے روسی فوجیوں کی عیادت کی۔
امریکا نے اپنا سُپر نیوکلئیر ہتھیار بنانے کا طریقہ کار کھو دیا
پیوٹن کا کہنا تھا کہ ”پوسائیڈون“ نہ صرف سمندر کی گہرائیوں سے لانچ ہوتا ہے بلکہ اپنے ایٹمی پاور یونٹ کے ذریعے طویل عرصے تک فعال رہ سکتا ہے۔ ان کے بقول، ”ہم نے پہلی بار اسے آبدوز سے لانچ انجن کے ذریعے چلایا اور اس کا نیوکلیئر پاور یونٹ بھی کامیابی سے فعال ہوا، ایسا نظام دنیا میں کسی کے پاس نہیں۔“
روس نے یہ تجربہ منگل کے روز کیا تھا۔ عسکری ماہرین کے مطابق پوسائیڈون ایک ایسا ہائبرڈ ہتھیار ہے جو ایٹمی ٹارپیڈو اور ڈرون دونوں کی خصوصیات رکھتا ہے۔ اس کا نام دیوتا ”پوسائیڈون“ کے نام پر رکھا گیا ہے اور نیٹو میں اسے ”کینیون“ (Kanyon) کہا جاتا ہے۔ روسی میڈیا کے مطابق یہ ہتھیار 20 میٹر لمبا، تقریباً دو میٹر چوڑا اور 100 ٹن وزنی ہے۔
نیوکلئیر بم سے بھی خطرناک ہتھیار، جس سے دنیا خوفزدہ ہے
ماہرین کا کہنا ہے کہ پوسیڈون 10 ہزار کلومیٹر تک سفر کر سکتا ہے اور تقریباً 185 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے حرکت کرتا ہے۔ اس میں دو میگا ٹن صلاحیت کا ایٹمی وار ہیڈ نصب کیا جا سکتا ہے، جو ساحلی شہروں میں تباہ کن تابکاری لہریں پیدا کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔

پیوٹن نے مزید کہا کہ پوسائیڈون کی طاقت روس کے جدید ترین بین البراعظمی میزائل ”سرمد“ (Sarmat) سے بھی زیادہ ہے۔ انہوں نے مغربی دنیا کو واضح پیغام دیا کہ روس کبھی بھی یوکرین جنگ یا مغربی دباؤ کے سامنے جھکنے والا نہیں۔
روس کے اس تجربے کے بعد عالمی سطح پر ایک نئی ایٹمی دوڑ کا آغاز ہوگیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی محکمہ دفاع کو نیوکلئیر تجربات شروع کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق امریکا، چین اور روس تینوں ہی اپنے ایٹمی ہتھیاروں کو جدید بنانے کی دوڑ میں شامل ہیں۔
یورینیم سے نیوکلئیر بم کیسے بنایا جاتا ہے؟
دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے روسی تجربے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”پیوٹن کو ایٹمی میزائل آزمانے کے بجائے یوکرین میں جنگ ختم کرنی چاہیے۔“
واضح رہے کہ روس نے پچھلے ہفتے ایک اور جدید میزائل ”بیوریویستنک“ کا بھی کامیاب تجربہ کیا تھا، جس کے بعد مغربی ممالک میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔
