اسلام آباد میں ایم کیو ایم رہنماؤں ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی، فاروق ستار اور امین الحق نے 27ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے مشترکہ پریس کانفرنس کی۔
ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ چھبیسویں آئینی ترمیم کے وقت ایم کیو ایم نے ایک مطالبہ رکھا تھا کہ ایسی جمہوریت ہو جس کے ثمرات عوام تک پہنچیں اس کا اہتمام کیا جائے، چھبیسویں ترمیم میں کوئی اضافی بات نہیں کی۔
انہوں نے کہا کہ یہ ایوان عام پاکستانیوں کیلئے قانون سازی کرنے کیلئے ہے، ستائیسویں آئینی ترمیم پر خود حکومت سے رابطہ کیا، ہمارے وفد نے وزیر اعظم سے ملاقات کی تھی۔
ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ اب ایک الگ آئینی عدالت کے قیام کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے،
آئینی مقدمات دس فیصد ہیں لیکن پچاس فیصد وقت مانگتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ تعلیم کو صوبوں کے حوالے کرنے سے نتائج الٹے نظر آرہے ہیں، اب غور کیا جارہا ہے کہ تعلیم کے حوالے سے فیصلے کیے جائیں، ہماری رائے ہے کہ بہبود ابادی کا محمکہ وفاق کے ساتھ ہونا چاہیے۔
ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ حکومت سمجھتی ہے کہ آئینی ترمیم سے عدالتی نظام میں بہتری آئے گی، وقت کا تقاضا ہے کہ قیاس آرائیوں سے گریز کیا جائے کیونکہ پاکستان اپنی تاریخ کے اہم ترین دور سے گزر رہا ہے۔
انہوں نے کہا ہک اٹھارویں ترمیم کے ساتھ تعلیم کو تقسیم کیا گیا مگر یکساں مواقع نہیں ملے، سب سے ضروری بات یہ ہے کہ ایسی بلدیاتی حکومت ہو جس کے نتائج عوام تک پہنچیں، اسی طرح صوبائی حکومت کے حوالے سے بھی آئین فیصلہ کرے، ایک ناظم جائے اور نوے دن کے اندر انتخابات ہوں جس کے بعد اختیارات دوسرے ناظم تک منتقل کیے جائیں۔
ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ ہم نے چھبیسویں آئینی ترمیم میں کہا تھا کہ ہمارے مسودے کو آئینی ترمیم کے ساتھ جوڑا جائے مگر ایسا نہیں ہوا، وفاقی وزیر قانون نے ہمیں یقین دلایا تھا کہ ستائیسویں آئینی ترمیم میں یہ معاملہ حل ہو جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ پنجاب اسمبلی نے 140 اے پر اتفاق رائے کیا اور کہا کہ یہ نا گزیر ہے، پنجاب اسمبلی کا یہ اقدام ایم کیو ایم کی بات کو سپورٹ کرتا ہے۔