مادہ سبزکچھوا کراچی کےساحلی مقامات سینڈز پٹ،ہاکس بے،پیراڈائزپوائنٹ کےعلاوہ بلوچستان کے ساحلی مقامات جیوانی، گوادر،اورماڑہ پسنی،دھیران،فرنچ بیچ،مبارک ولیج اورکیپ ماونزے اورچرناجزیرے پربھی افزائش نسل کے لیے رخ کرتی ہیں۔
کئی برس تک کراچی کےساحلی مقامات پرگرین ٹرٹلزکی افزائش نسل میں مسلسل جمود کےبعد ایک مرتبہ پھرمثبت پیش رفت ہورہی ہے۔
اس دوران ماضی کی طرزپرانڈے دینےکےلیے آنے والی مادہ کچھووں کی تعدادمیں نمایاں اضافہ ہواہے۔گزشتہ چار ماہ کےدوران(اگست تا نومبر)سندھ وائلڈ لائف کےاہل کاروں نےاب تک 30ہزارکےلگ بھگ انڈےآہنی حفاظتی گرل کے حامل گھونسلوں میں منتقل کردیے ہیں،جہاں ان انڈوں میں افزائش نسل کا عمل جاری ہے۔
واضح رہےکہ کبھی انڈوں کی اتنی تعداد پورے سیزن میں ہواکرتی تھی۔
محکمہ سندھ وائلڈ لائف کے انچارج میرین ٹرٹل اشفاق میمن کا ایکسپریس نیوزسےگفتگومیں کہناتھا کہ رواں سال بڑی حد تک مثبت پیش رفت ہورہی ہے۔اب تک 30ہزارانڈے جمع کیے جاچکےہیں جبکہ انڈوں سےنکلنے والےایک تا دو روزکے30ہزارکےلگ بھگ بچے سمندرمیں چھوڑے جاچکےہیں۔ رات کی تاریکی میں مادہ سبزکچھوے کی آمد کا سلسلہ ہاکس بے کےطویل ساحل پرجاری ہے۔
ایسے وقت میں موقع پرموجود محکمہ جنگلی حیات کےاہل کاراس بات ممکن بناتے ہیں کہ مادہ کچھوا کوکسی قسم کے شور شرابے، برقی لائٹوں یا پھرکسی اوردشواری کا سامنا نہ ہو،کیونکہ جب ان مادہ کچھوا کوسازگارماحول دستیاب نہیں ہوتاتووہ واپس گہرے پانی میں چلی جاتی ہیں،اس واپسی کےسفرمیں اکثران کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ صبرآزما مراحل کےبعد اہلکاران انڈوں کوجمع کرنے کا کام شروع کردیتے ہیں۔
اشفاق میمن کے مطابق سن 2000تک سمندری کچھووں کی 7 اقسام سندھ،بلوچستان کے ساحلی مقامات پرپائی جاتی تھیں۔تاہم، سمندری آلودگی،تجارتی سرگرمیوں اورتفریحی عوامل کی وجہ سے یہ تعداد بتدریج کم ہوکراب صرف 2رہ گئی،ان دواقسام میں سے اولیوریڈلی(زیتونی کچھوے)بھی تقریبا ناپید ہوچکے ہیں۔ سن 2010کے بعد کوئی بھی زندہ زیتونی مادہ کچھواکراچی کے ساحلوں پرنہیں دیکھا گیا۔البتہ مردہ حالت میں لہروں کے دوش پربہتے کنارے پرضرور رپورٹ ہوچکے ہیں، سن 1975سے اب تک 9لاکھ کے لگ بھگ کچھووں کے بچےسمندرمیں چھوڑے جاچکے ہیں۔
سبزکچھوے بحراوقیانوس،بحرالکاہل اوربحرہند کے گرم اورمعتدل ساحلوں کے قرب وجوار میں پائے جاتے ہیں۔ ان کی اوسط عمر70سال کے لگ بھگ ہوتی ہے،مگریہ 100سال تک بھی جیتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق یہ جاندارڈائنا سار کے دورسے کرہ ارض پرموجود ہیں،مادہ کچھوا ایک وقت میں 120سے170کی تعداد میں انڈے دیتی ہے۔ ان انڈوں کی ساخت ٹیبل ٹینس کے بڑی گیند جیسی ہوتی ہے۔ مادہ سبز کچھوا کراچی کے سینڈز پٹ،پیراڈائزپوائنٹ کے علاوہ بلوچستان کے ساحلی مقامات جیوانی،گوادر،اورماڑہ پسنی،دھیران،فرنچ بیچ،مبارک ولیج اورکیپ ماونزے اورچرنا جزیرے پربھی افزائش نسل کے لیے رخ کرتی ہے۔
آئی یوسی این کی ایک تحقیق کے مطابق انڈوں سے بحفاظت نکلنے والے کچھووں کی بقا کا تناسب اعشاریہ ایک فیصد ہے،یعنی ایک ہزاربچوں میں سے کوئی ایک زندہ بچ پاتا ہے۔یہی وہ نقطہ فکرہے،جس کی وجہ سے عالمی ادارے اورسندھ وائلڈ لائف ان بچوں کی بقا کے لیے مسلسل سرگرداں ہیں۔
ماہرین کے مطابق کچھوے سمندر کی گہری تہہ میں ایک ایسے کردارکے حامل ہیں،جس پرسمندر کی پوری دنیا کی سلامتی کا دارومدارہے،ان کچھووں کی خوراک تہہ آب اگنے والی سمندری گھانس ہے،جس کو یہ اپنی خوراک کے ذریعے ایک خاص حد سے بڑھنے نہیں دیتے،اگرکچھوے اس گھانس کو کھانا چھوڑدیں تواس گھانس کی بلندی کی وجہ سے سمندرمیں شدید گھٹن پیداہوسکتی ہے۔