اشرافیہ کی کرپشن کس طرح پاکستان کی جی ڈی پی کا 6 فیصد کھا گئی؟

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے کہا کہ پاکستان میں کرپشن ایک سنگین اقتصادی بحران کی وجہ ہے، جو اسٹیٹ کیپچر کے تحت پیدا ہوا ہے، جہاں عوامی پالیسی کو چند سیاسی اور کاروباری اشرافیہ کے مفاد کے لیے تبدیل کر دیا جاتا ہے۔

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق گورننس اینڈ کرپشن ڈائیگناسٹک اسیسمنٹ جو نومبر 2025 میں مکمل ہوئی، ایک ایسے نظام کی تشویشناک تصویر پیش کرتی ہے جس میں ادارے غیر فعال ادارے ہیں اور قانون کی عملداری یا عوامی وسائل کی حفاظت کرنے سے قاصر ہیں۔

186 صفحات پر مشتمل اس رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کرپشن مستقل اور ملک کے لیے شدید نقصان کا باعث ہے، جس سے مارکیٹیں متاثر ہوتی ہیں، عوام کا اعتماد ختم ہوتا ہے اور مالی استحکام کمزور ہوتا ہے۔

رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ اگر بااختیار طبقے کے خصوصی مراعات کے ڈھانچے کو ختم نہ کیا گیا تو ملک کی اقتصادی سست روی برقرار رہے گی۔

رپورٹ کے مطابق کرپشن کے خطرات ہر سطح پر موجود ہیں، لیکن سب سے زیادہ اقتصادی نقصان پہنچانے والی صورت حال وہ ہے جہاں مخصوص اشرافیہ اہم اقتصادی شعبوں پر اثر انداز ہوتی ہے، بشمول وہ شعبے جو ریاست کے زیرِ ملکیت ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر گورننس میں بہتری اور جوابدہی مضبوط کی جائے تو پاکستان کو نمایاں اقتصادی فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔

آئی ایم ایف کے تجزیے کے مطابق اگر پانچ سال کے دوران گورننس اصلاحات کا ایک پیکیج نافذ کیا گیا تو جی ڈی پی میں 5 سے ساڑھے 6 فیصد اضافہ ممکن ہے۔ پاکستان کا جی ڈی پی 2024 میں 340 ارب ڈالر تھا۔

آکسفورڈ یونیورسٹی کے اقتصادی پالیسی کے پروفیسر اسٹیفن ڈیرکون، جنہوں نے پاکستانی حکومت کو اقتصادی اصلاحات میں مشورہ دیا تھا، انہوں نے کہا کہ کرپشن کے کیسز میں جوابدہی کی کمی ملک کی اقتصادی صلاحیت کو نقصان پہنچا رہی ہے۔



AAJ News Whatsapp


ان کا کہنا تھا کہ قوانین اور جوابدہی کے اصولوں کے نفاذ میں ناکامی مخصوص مفاد پرستوں کو آزادی دے دیتی ہے اور اقتصادی اصلاحات کی کوششوں کا مرکز یہی ہونا چاہیے۔

آئی ایم ایف رپورٹ میں کیا کہا گیا؟

سن 1958 سے پاکستان آئی ایم ایف سے پچیسویں بار قرض لینے والا ملک بن چکا ہے۔ تقریباً ہر آنے جانے والی حکومت نے اپنے دور میں آئی ایم ایف سے رجوع کیا ہے، جو ادائیگی کے توازن کے دیرینہ بحران کی عکاسی کرتی ہے۔

گورننس اینڈ کرپشن ڈائیگناسٹک اسیسمنٹ کی ریلیز اس سے قبل ہوئی ہے جب آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کو توقع ہے کہ آئندہ ماہ 1.2 ارب ڈالر کی ادائیگی کی منظوری دے دی جائے گی، جو 37 ماہ کے 7 ارب ڈالر پروگرام کا حصہ ہے۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان عالمی گورننس انڈیکیٹرز میں مسلسل نچلی سطح پر رہتا ہے۔ 2015 سے 2024 کے درمیان کرپشن پر کنٹرول کے حوالے سے پاکستان کا اسکور یکساں رہا اور عالمی سطح پر اور پڑوسی ممالک میں سب سے کم کارکردگی رکھنے والے ممالک میں شامل رہا۔

رپورٹ کا بنیادی خیال اسٹیٹ کیپچر ہے، جہاں کرپشن معمول بن چکی ہے اور دراصل حکمرانی کا بنیادی ذریعہ ہے۔

رپورٹ میں اندازہ لگایا گیا کہ اشرافیہ کی مراعات یعنی چند افراد کو سبسڈیز، ٹیکس میں چھوٹ اور منافع بخش ریاستی معاہدے فراہم کرنا، ہر سال معیشت سے اربوں ڈالر نکال دیتی ہیں، جبکہ ٹیکس چوری اور ریگولیٹری کیپچر حقیقی نجی شعبے کی سرمایہ کاری کو روکتی ہیں۔

یہ نتائج 2021 کی اقوام متحدہ کی ترقیاتی پروگرام کی رپورٹ سے ہم آہنگ ہیں، جس میں کہا گیا کہ پاکستان کی اشرافیہ کو دی جانے والی اقتصادی مراعات، بشمول سیاستدانوں اور طاقتور فوجی، ملک کی معیشت کا تقریباً 6 فیصد ہیں۔

Similar Posts