فلم ’’دھرن دھار‘‘ اور ہماری دانش

میری جرمنی میں مقیم بیٹی مرضیہ نے مجھے بتایا کہ لایعنی گفتگو یا غیر ضروری بحث کو جرمنی میں اچھا نہیں سمجھا جاتا ہے، بیٹی کا کہنا تھا کہ ’’جرمنی کے لوگوں کی گفتگو آئیڈیاز اور دنیا کو تسخیرکرنے کی ہوتی ہے، اور اگر انھیں یہ گمان ہو جائے کہ گفتگو فضول ہے تو وہ اسے وقت کا ضیاع ہی سمجھتے ہیں‘‘ یہ بات مجھے دنیا میں ترقی کرنے والی اقوام کے تناظر میں بہت بھلی لگی۔

دوسری جانب جب ہم ترقی پذیر ممالک اور خاص طور پر پاکستانی عوام کے رجحان کو دیکھتے ہیں تو نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم اکثر لایعنی بحث میں پڑکر بے مقصدیت میں اپنے قیمتی وقت کو ضایع کر رہے ہوتے ہیں۔

یہ خیال مجھے آج کل بھارت کی نئی ریلیز شدہ فلم’’دھرندھار‘‘ کے بارے میں ہمارے فیس بکی ’’علاماؤں‘‘ کے تبصروں اور اپنے اپنے انداز سے خیال آرائی کے بعد آیا، جس میں کافی سارے علاماؤں نے اپنے اپنے تبصرے اور تجزیے پیش کیے ہیں۔

سو پہلے بات کرلیتے ہیں۔ بھارتی فلم ’’دھرندھار‘‘ کے بارے میں، جس کی کہانی کا پلاٹ لیاری کراچی میں ہونے والے ان خونین و قتل و غارت کے حقیقی واقعات سے ہے جو 90 سے لے کر2010 تک شدومد سے جاری رہے، جب کہ ہمارے ہاں آج تک اس کے اسباب و علل پرکوئی سنجیدہ بحث تو نہ ہوسکی۔

البتہ بھارتی فلم ’’ دھرندھار‘‘ کے آنے کے بعد ہم اس مذکورہ عرصے میں لیاری میں پیش آنے والے واقعات کے حقائق کو یکسر فراموش کرکے ’’حب الوطنی‘‘ کے سرٹیفیکیٹ لینے کی ایک لاحاصل دوڑ میں جت چکے ہیں۔

بھارتی فلم کے ضمن میں مجھے یاد آیا کہ بھارت کے مایہ ناز ترقی پسند شاعر کیفی اعظمی کی اداکارہ بیٹی شبانہ اعظمی کی ایک فلم ’’فائر‘‘ 90 کی دہائی میں ریلیز ہوئی تھی جس میں انڈین سماج کے فرسودہ رسم و رواج میں انسانی آزادی و نفسیات کو قیدکرنے کے حوالے سے ایک نئے مزاج’’ لیس بیین‘‘ کو موضوع بنایا گیا تھا۔

جس پر میں نے 90کی دہائی میں ترقی پسند شاعر توقیر چغتائی کی ادارت میں ماہنامہ ’’جفا کش‘‘ میں ایک تفصیلی مضمون لکھا تھا جس کوکیفی صاحب اپنی بیٹی شبانہ اعظمی کے لیے مجھ سے فرمائش کرکے بمبئی لے گئے تھے۔ بعد کو اسی فائر فلم کے تبصرے پر بھارت کی معروف شاعر اور افسانہ نگار امرتا پریتم کا ایک خط بھی موصول ہوا تھا۔

دنیا کی کسی بھی فلم کو دیکھنے کے بنیادی زاویوں میں کہانی، ہدایات، مکالمات اور عکس بندی کے کمالات کے علاوہ فلم کے پیغام پر نظر رکھنا ضروری ہے، پھر اس کے بعد اس دورکے تقاضوں پر سرسری نگاہ ڈالنا بھی ضروری ہے کہ آیا یہ دور پروپیگنڈے کا ہے یا کسی نکتہ نظرکو عوام میں فلم کے ذریعے پذیرائی دلوا کر اپنے مطلوبہ اہداف حاصل کرنے کا، اس سلسلے میں یورپ اور امریکا میں بننے والی لاتعداد ایسی فلمیں ہیں جو ایک خاص مقصد یا ’’ سوشل ازم کے نظریے‘‘ کے مخالف بنائی گئیں اور دنیا کی عوام کو حقائق سے دور رکھا گیا۔

فلم دیکھتے وقت اس وقت کے واقعات یا تاریخ سے آگہی فلم بین کا بنیادی فرض جانا جاتا ہے اور اگر فلم بین کسی بھی فلم کی کہانی کے پس منظر سے واقف نہیں ہوگا تو فلم بین کو ہر فلم ایک پروپیگنڈا لگے گی، یہاں اس بات سے مفر ناممکن ہے کہ فلم بنانے کے پیچھے کوئی مقصد یا پروپیگنڈا نہیں ہوتا۔

اسی طرح یہ جاننا بھی ضروری ہوجاتا ہے کہ فلم بنانے کے لیے دستیاب مواد کی کوئی حقیقت بھی ہے یا صرف فلم میں پروپیگنڈا ہی ہے، اس تناظر میں بھارتی فلم ’’دھرن دھار‘‘ ایک ایسی حقیقی کہانی پر مبنی فلم ہے جس میں ڈرامہ، فکشن، سسپنس اور واقعات کا دھارا فلم کی ضرورت کے تحت رکھا گیا ہے۔

مگر لیاری کراچی کے اس بھیانک خون خرابے اور ان واقعات میں ریاستی پشت پناہی کو نکالنا کس طرح حقائق کے برعکس ہو سکتا ہے ؟ کیا تاریخ اس حقیقت سے آگاہ نہیں کہ پاکستان کے قیام سے پہلے ’’ لیاری‘‘ پر مغز اور جفاکش انسانوں کی وہ بستی تھی ،جہاں آسمان پر سفیدی چھانے سے پہلے صبح تڑکے سمندر اس بستی کے قدموں کی چاپ کا منتظر رہتا تھا۔

رات کے پہر میں گھن گھرج کرتا ہوا جوار بھاٹے مانند سمندر، کشادہ دل اور سینے رکھنے والے لیاری کے جفاکش ماہی گیروں کے احترام میں ساکت سا ہوا جاتا تھا، سمندر جانتا تھا کہ اس کے پالنہار لیاری کے محنت کش اور جذبوں سے سرشار مکین اس کی لہروں سے باہم ہوکر اس کی امیدوں کا سبب بنیں گے۔

سمندر اس بات سے بھی آگاہ تھا، اس کی تھاہ میں چھپے ہوئے جواہرات کے یہی ’’ لیاری واسی‘‘ محافظ بھی ہیں اور قدردان بھی، سمندرکے سروں اور مستی سے واقف اسی لیاری کے رہواسی اپنے مخصوص انداز میں اپنی موسیقی اور ’’ لیوا‘‘ پر رقص کرتے تھے تو شام ڈھلے ان ناچتے گانوں کے ساتھ سمندر بھی جھومنے لگتا تھا۔

یہی لیاری تھا نا جہاں فیض احمد فیض علم کے چراغ روشن کرتے ہوئے لیاری کی ذہانت اور دانش کی قدرکیا کرتے تھے، جہاں جگہ جگہ لائیبریریاں تھیں، اسی بستی کے افراد نے عالمی فٹبال میں ملک کا نام بنایا اورآج بھی اسی ’’ لیاری‘‘ کا روشن چہرہ محنت کش گھرانے کی یہ بچی عالیہ سومرو انٹر نیشنل رینکنگ فائٹ جیت کر لوٹی تو عالیہ سومروکا شاندار روایتی استقبال لیاری واسیوں نے ہی کیا۔

لیاری کی ہونہار عالیہ سومرو کے اس کارنامے پر تمام زبانوں کے میڈیا کیوں خاموش ہیں یا اس کے شہر کے حقوق کے سورما کیا کیا کچھ لیاری اور ان کے ہونہار بچے بچیوں کے لے کر رہے ہیں؟

ہاں اس سے میں واقف ہوں کہ لیاری کے جرات مندوں کا جمہوری اور مست و مگن انداز ہمیشہ آمروں کوکھٹکا اور انھوں نے لیاری کی ذہانت و صلاحیت کو زنگ لگانے کے لیے منشیات فروخت کیں، تازہ ذہنوں کو ایک منصوبہ بندی کے تحت اپاہج کیا گیا اور آمر نے لیاری کے جمہوریت پسند بستی میں اپنی بنائی ہوئی۔

کراچی کی لسانی تنظیم کے سہارے خون کی ہولی کھیلی، اپنے افراد کو یہ ٹاسک دیا کہ لیاری میں علم کی شمعوں کو بجھا دو اور بربریت کی ایک ایسی فضا قائم کرو کہ لیاری کا پرمغز ذہن دنیا میں بدنام ہوجائے، اگرآج اس بربریت کے لیاری میں کھیلے جانے والے خونی انسانی ہولی کے واقعات کو فلم ’’دھرن دھار‘‘ کے ذریعے منظر عام پر لایا جا رہا ہے تو سب فیس بکی علاماؤں کو وطن کی محبت کے دورے پڑرہے ہیں۔

معذرت کے ساتھ یہ وہ افراد ہیں جنھیں نہ لیاری کے حقائق سے دلچسپی ہے اور نہ ہی یہ اصل کرداروں کو منظر عام پر لانے یا انھیں تاریخ کے کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہتے ہیں، بس صرف ایک لایعنی سی بحث شروع ہے جس سے نسل کی کمزور دانش کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

Similar Posts