عالمی سطح کے صاحبانِ علم ودانش کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’’کسی بھی انسانی معاشرے یا قوم کی بقاء اور نشونما کے لیے دو چیزیں بنیاد کی حیثیّت رکھتی ہیں اور آکسیجن کی طرح ضروری ہیں۔ امیّد اور حوصلہ، یہ دونوں چیزیں کلامِ الٰہی کے بعد اگر کہیں سب سے زیادہ ملتی ہیں تو وہ کلامِ اقبالؒ ہے‘‘ بلاشبہ فکرِ اقبالؒ امیّد اور حوصلے کا دوسرا نام ہے۔ یہ وہ حیات آفریں پیغام ہے جس نے دنیا کے ہر برِّاعظم میں انسانوں کو بالعموم اور مسلمانوں کو بالخصوص بہت inspire کیا ہے۔ سینٹرل ایشیا کے کئی ممالک اپنی آزادی کو علّامہ اقبالؒ کی انقلابی شاعری کا ثمر قراردیتے ہیں، بہت سے ممالک نے اقبالؒ کی فارسی کی نظموں کو اپنا قومی ترانہ بنالیا ہے، علامہ کی مشہور نظم
معمارِ حرم باز بہ تعمیر جہاں خیز
از خوابِ گراں خیز گراں خیز گراں خیز
تاجکستان کا قومی ترانہ ہے۔ چند سال پہلے جب یورپ کے قلب میں واقع بوسنیا کے مسلمانوں کی اسی طرح نسل کُشی کی جارہی تھی جس طرح اسرائیل فلسطینی مسلمانوں کی کررہا ہے۔ اُس وقت ملک میں موبائل فون تو کم تھے مگر قوم میں جان تھی اور ملک توانا تھا اور اپنے پاؤں پر کھڑا تھا۔ اُس وقت کے وزیراعظم اظہارِ یکجہتی کے لیے بوسنیا پہنچے اور مسلمانوں کے عظیم لیڈر عزت بیگووچ سے جاکر ملے۔ وفد کے ارکان نے خود بتایا کہ اُدھر کسمپرسی اور بے سروسامانی کا یہ عالم تھا کہ پاکستانی وزیراعظم اور وزراء کو چائے تک نہ پلائی جاسکی۔ ان کے انقلابی لیڈر اور بوسنیا کے پہلے صدر عزت بیگووچ نے صرف ایک چیز پاکستانی راہنما کو پیش کی اور وہ تھی ان کی کتاب جس پر انھوں نے لکھا تھا Dedicated to the greatest poet and philosopher of modern muslim world Dr. Muhammad Iqbal. پاکستانی وفد کے ارکان نے انتساب کی وضاحت چاہی تو میزبان نے کہا ’’دشمن نے ہماری ہر چیز تباہ کردی ہے۔ مگر وہ ہم سے دو چیزیں نہیں چھین سکا۔ اور وہ ہیں Hope and Renilience ہماری امید اور حوصلہ یہ دونوں چیزیں ہم نے ڈاکٹر اقبال کی فکر اور فلسفے سے حاصل کی ہیں۔
بلاشبہ امید دم توڑدے اور حوصلہ ختم ہوجائے تو قومیں فنا کے گھاٹ اتر جاتی ہیں۔ امید قائم رہے اور حوصلہ تروتازہ رہے تو جرمنی اور جاپان کی طرح قومیں نہ صرف دوبارہ اٹھ کھڑی ہوتی ہیں بلکہ ترقی کی دوڑ میں سب سے آگے نکل جاتی ہیں۔ ہماری نئی نسل کو امید اور حوصلے کی ضرورت ہے۔ جس سے بھی بات کریں وہ مایوسی کا شکار نظر آتا ہے اور ملک سے باہر بھاگنا چاہتا ہے، جس سے اس کی مایوسی اور بے حوصلگی کا پتہ چلتا ہے۔ انھیں مایوسی اور ناامیدی کے اندھیروں سے نکالنے کی ضرورت ہے، مگر اربابِ بست وکشاد نے انھیں دو کاموں پر لگادیا ہے، وہ کرکٹ دیکھیں یا ناچ گانوں سے لطف اندوز ہوں۔ کچھ سیاسی لیڈروں نے انھیں سیاست بازی پر لگادیا تھا۔ نہیں۔ ہرگز نہیں۔ نئی نسل جس مرض کا شکار ہوچکی ہے اس کا علاج نہ سیاست بازی ہے نہ کھیل کھلواڑ اور نہ موج مستی۔ ان کے مایوس اور تاریک ذہنوں کو فکرِ اقبالؒ کی روشنی سے منوّر کرنے کی ضرورت ہے۔ اور یہ ذمّے داری ہم اپنا فرض اور مشن سمجھ کر نبھانے کی کوشش کررہے ہیں۔
اسلام آباد اور لاہور کے اہلِ علم ودانش جانتے ہیں کہ پیغامِ اقبالؒ کے فروغ کے لیے لاہور میں پچھلے دو سالوں میں سب سے بڑی تقریبات کا اہتمام علّامہ اقبال کونسل نے کیا تھا۔ اِس سال نومبر میں وفاقی دارالحکومت میں بھی سب سے بڑی تقریب منعقد کرنے کا اعزاز علامہ اقبال کونسل کو ہی حاصل ہوا ہے۔ نومبر کے مہینے کو ماہِ اقبالؒ سمجھا جاتا ہے، چھوٹی چھوٹی تقریبات تو کئی اداروں نے منعقد کیں، مگر سب سے شاندار، باوقار اور یادگار تقریب پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس اسلام آباد میں منعقد ہوئی۔ جس کا انتظام وانصرام علامہ اقبال کونسل نے کیا۔ پی این سی اے کا آڈیٹوریم کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ سامعین کی پہلی قطار میں ماہرینِ تعلیم، دانشور سابق نیول چیف، جج صاحبان، سابق فیڈرل سیکریٹری، سابق آئی جی، تعلیمی اداروں کے سربراہان، صنعت وتجارت لیڈران، سیاستدان، علماء اور خواتین بڑی تعداد میں موجود تھیں، ان کے علاوہ کالجوں کے طلباء اور طالبات کی بہت بڑی تعداد شریک ہوئی۔
تقریب کے مہمانِ خصوصی وفاقی وزیر پروفیسر احسن اقبال تھے جب کہ مقررین میں ترکی، ایران اور بنگلہ دیش کے سفیر صاحبان، ماہرِ اقبالیات ڈاکٹر حمیرہ شہباز اور راقم شامل تھے۔ ترکی کے مردِ آہن طیب اردوان کو علّامہ اقبال کی (ترکی میں ترجمہ شدہ) درجنوں نظمیں یاد ہیں جنھیں وہ اپنی تقریروں میں بار بار استعمال کرتے ہیں، ترک قوم بھی علّامہ سے بے حد عقیدت رکھتی ہے۔ لہٰذا ترکیہ کے سفیر نے بھی اپنی تقریر میں شاعرِ مشرق کے لیے بڑی محبت اور عقیدت کا اظہار کیا۔ ایران میں علامہ اقبال کا اپنے قومی شاعر کی طرح احترام کیا جاتا ہے، ان کے سپریم لیڈر سیّد علی خامینائی بڑے فخر کے ساتھ اپنے آپ کو مریدِ اقبالؒ کہتے ہیں۔ انقلابِ ایران کے نظریاتی گائیڈ ڈاکٹر علی شریعتی بھی علامہ اقبال کو اپنا مرشد مانتے ہیں لہٰذا ایرانی سفیر کی تقریر بھی توقّع کے مطابق تھی۔ بنگلہ دیش میں جب سے نوجوانوں نے بھارتی سامراج کے بت پاش پاش کیے ہیں اور مودی کی غلامی سے آزادی حاصل کی ہے، اس وقت سے پاکستان اور بنگلہ دیش کے مراسم میں بہت گرمجوشی پیدا ہوئی ہے۔
اس پس منظر میں لوگ منتظر تھے کہ بنگلہ دیش کے سفیر حکیم الامّت کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ انھوں نے آتے ہی جب یہ بتایا کہ میرے والدین نے علّامہ اقبال کی عقیدت میں میرا نام محمد اقبال رکھا ہے تو ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ سفیرِ محترم برادرم محمد اقبال صاحب نے موضوع کے ساتھ خوب انصاف کیا۔ عام وزیروں کے برعکس احسن اقبال صاحب نے بہت اچھی تقریر کی۔ انھوں نے بتایا کہ پاکستان بننے کے فوراً بعد آئین ساز اسمبلی میں قائداعظم کی ہدایت پر جو پہلا بل منظور ہوا وہ فکرِ اقبال کے فروغ کے لیے اقبال اکیڈیمی کے قیام کے بارے میں تھا، جس کے لیے اس وقت کے وزیرِ خزانہ نے ایک لاکھ روپے منظور کیے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اقبالؒ کا پیغام پھیلانے میں خود قائداعظم کو کس قدر دلچسپی تھی۔ ڈاکٹر حمیرا شہباز نے فارسی زبان وادب میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے، وہ علامہ اقبال کے فارسی کلام سے خوب آشنا ہیں۔ انھوں نے فارسی لب ولہجے پیامِ مشرق کے اشعار سنا کر سامعین کو بہت متاثر کیا اور پھر ان کی تشریح کرکے نوجوانوں کا لہو گرما دیا۔
میری گفتگو کا فوکس فکرِ اقبال کے صرف چند پہلوؤں کی جانب رہا۔ ایک یہ کہ حکیم الامّت نے امیّد کا جو چراغ جلایا اس کی لَو کبھی مدہم نہیں ہونے دی۔ کسی نے آکر تشویش کا اظہار کیا کہ ڈاکٹر صاحب، مغربی تہذیب تو کمزور مسلمانوں کا عقیدہ تک بہا کر لے جارہی ہے تو حوصلہ دیتے ہوئے کہا کہ مسلمان کا ایمان اور عقیدہ وہ موتی ہے جو طوفانوں کے تھپیڑے کھا کر اور چمکدار ہوگا
مسلماں کو مسلماں کردیا طوفانِ مغرب نے
تلاطم ہائے دریا ہی سے ہے گوہر کی سیرابی
لوگوں نے ترکوں اور عثمانی سلطنت پر ٹوٹنے والے مصائب کا رونا رویا تو انھیں بھی امید دلاتے ہوئے کہا کہ جس طرح ہزاروں ستارے جان کی قربانی دیتے ہیں تو اس کے بعد سحر طلوع ہوتی ہے ؎ اگر عثمانیوں پر کوہِ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے،کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا، ترکوں کی قربانیوں کے بعد جلد سحر طلوع ہوگی۔
علامہ اقبالؒ محنت اور جدوجہد پر بہت زور دیتے ہیں۔ وہ مسلمانوں کو باور کراتے رہے کہ کامیابی کی منزل کی جانب ایک ہی راستہ جاتا ہے اور وہ جدوجہد اور محنت کا راستہ ہے۔
بے محنتِ پیہم کوئی جوہر نہیں کھُلتا
روشن شررِ تیشہ سے ہے خانۂ فرہاد
علاّمہ جہدِِ مسلسل اور عملِ پیہم کے لیے خونِ جگر جلانے کی ترکیب استعمال کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کسی بھی میدان میں چاہے وہ مصوری ہو، موسیقی ہو، طب ہو، انجینئرنگ ہو، آدھی رات کا چراغ بھی جلتا ہے اور ساتھ خونِ جگر بھی جلانا پڑتا ہے کہ
نقش ہیں سب ناتمام خونِ جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام خونِ جگر کے بغیر
نوجوانوں کو بتایا گیا کہ علّامہ اقبال بجا طور پر سمجھتے تھے کہ جب تک علم اور تحقیق مسلمانوں کی ترجیح اوّل تھی وہ دنیا کی سپر پاور تھے۔ جب انھوں نے علم سے ناطہ توڑ لیا اور تحقیق کے مراکز کو تالے لگادیے تو وہ ذلّت اور زوال کے گہرے کنویں میں جاگرے۔ نئی نسل کو سوزِ اقبال سے سرشار کرنے کا مشن انشاء اللہ پورے جوش وولولے کے ساتھ جاری رہے گا۔