بنگلہ دیش کی خودمختاری، جمہوریت اور استحکام

بنگلہ دیش کے چیف ایڈوائزر پروفیسر محمد یونس نے کہا ہے کہ ملک میں عام انتخابات 12فروری کو مقررہ وقت پر ہی ہوں گے۔ معزول آمرانہ حکومت کے حامی مبینہ طور پر انتخابی عمل میں خلل ڈالنے کے لیے لاکھوں ڈالر خرچ کر رہے ہیں، معزول حکومت کے رہنما تشدد کو ہوا دے رہے ہیں۔

عوام اپنے ووٹ کا حق استعمال کرنے کے لیے بے تاب ہے، جسے پچھلی آمرانہ حکومت نے چھین لیا تھا۔ان کا کہنا ہے کہ آزادانہ، منصفانہ اور پُرامن انتخابات کرانا چاہتے ہیں اور اسے یادگار بنانا چاہتے ہیں، دوسری جانب بھارت کی سرکاری سرپرستی میں شیوسینا اور آر ایس ایس کے ہندو شدت پسندوں نے دوروز قبل نئی دہلی میں بنگلہ دیش کے ہائی کمیشن آفس پر حملہ کردیا تھا۔ بنگلہ دیش نے احتجاج کرتے ہوئے ہائی کمیشن کی ویزا خدمات معطل کردیں۔ حملے کے بعد بنگلہ دیش میں غم وغصے کی لہر دوڑ گئی،چٹاگانگ میں بھارتی ڈپلومیٹ پوسٹ پر پتھراؤ کیا گیا۔دریں اثنا ء بنگلہ دیش میں سیاسی تشدد کا ایک اور واقعہ پیش آیا جہاں این سی پی کے سینئر رہنما کو نامعلوم مسلح ملزمان نے فائرنگ کرکے شدید زخمی کردیا۔اسی دوران بنگلہ دیش میں نوجوان طالب علم رہنما شریف عثمان ہادی کے مبینہ قاتل کی شناخت کرلی گئی ہے۔

بنگلہ دیش اس وقت تاریخ کے ایک نہایت نازک مگر فیصلہ کن موڑ پر کھڑا ہے۔ چیف ایڈوائزر پروفیسر محمد یونس کا یہ اعلان کہ ملک میں عام انتخابات 12 فروری کو اپنے مقررہ وقت پر ہی ہوں گے، یہ اس عزم کا اظہار ہے کہ بنگلہ دیش اب آمرانہ طرز حکومت، بیرونی مداخلت اور اندرونی انتشار کے سائے سے نکل کر ایک حقیقی جمہوری سفر کا آغاز کرنا چاہتا ہے۔ درحقیقت بنگلہ دیش کے عوام کا ووٹ کے حق کے لیے بے تاب ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ طویل عرصے سے مسلط آمرانہ طرزِ حکمرانی نے نہ صرف سیاسی آزادیوں کو سلب کیا بلکہ عوام کے دلوں میں جمہوریت کی قدر کو مزید بڑھا دیا۔ جب کسی قوم سے اس کا بنیادی حق چھین لیا جائے تو ردعمل میں وہ حق مزید طاقت کے ساتھ واپس مانگا جاتا ہے۔

یہی کیفیت آج بنگلہ دیش میں دیکھی جا سکتی ہے، بنگلہ دیش کی موجودہ صورتحال کو اگر وسیع تر علاقائی تناظر میں دیکھا جائے تو ایک حقیقت بار بار سامنے آتی ہے اور وہ ہے بھارت کی مسلسل مداخلت۔ جنوبی ایشیا میں بھارت کا کردار محض ایک ہمسایہ ریاست کا نہیں رہا بلکہ وہ خود کو ایک بالادست طاقت سمجھتے ہوئے اپنے تقریباً تمام پڑوسی ممالک کے اندرونی معاملات میں کسی نہ کسی صورت مداخلت کرتا آیا ہے۔ نیپال ہو یا بھوٹان، سری لنکا ہو یا پاکستان، بنگلہ دیش ہو یا مالدیپ، بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے کردار پر سوالات ہمیشہ اٹھتے رہے ہیں۔ کہیں سیاسی انجینئرنگ، کہیں حکومتوں کی تبدیلی، کہیں مسلح گروہوں کی سرپرستی اور کہیں معاشی دباؤ کے ذریعے بھارت نے خطے میں عدم استحکام کو جنم دیا ہے۔

پاکستان کی تاریخ اس حوالے سے ایک تلخ مگر ناقابلِ تردید مثال ہے۔ 1971 میں پاکستان کو دولخت کرنے میں بھارت کا کردار کسی سے پوشیدہ نہیں۔ مکتی باہنی کی سرپرستی، مسلح تربیت، مالی امداد اور براہِ راست فوجی مداخلت کے ذریعے بھارت نے مشرقی پاکستان میں خانہ جنگی کو ہوا دی اور بالآخر ایک آزاد ریاست کے قیام کو اپنی اسٹرٹیجک فتح کے طور پر پیش کیا۔ شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ کو بھارت کی مکمل حمایت حاصل تھی اور اقتدار کے بعد بھی بنگلہ دیش کی سیاست میں بھارتی اثر و رسوخ ایک مستقل عنصر بن کر سامنے آیا۔

شیخ حسینہ واجد کے طویل دورِ اقتدار نے اس تاثر کو مزید گہرا کیا کہ بنگلہ دیش کی سیاست بھارت کے سائے میں چل رہی ہے۔ ان کے دور میں اپوزیشن جماعتوں کے خلاف کریک ڈاؤن، سیاسی رہنماؤں کو پھانسیاں، جمہوری حقوق کی پامالی اور اختلافِ رائے کو غداری کے مترادف قرار دینا ایک معمول بن گیا۔ بنگلہ دیش کی تاریخ میں یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ سیاسی مخالفین کو کچلنے کے لیے ریاستی طاقت کا بے دریغ استعمال کیا گیا، مگر شیخ حسینہ کے دور میں اس کا پیمانہ اور شدت غیر معمولی رہی۔ ان پالیسیوں کے پیچھے بھارت کی خاموش یا اعلانیہ حمایت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

آج صورتحال یہ ہے کہ شیخ حسینہ واجد ملک سے باہر ہیں اور بھارت میں قیام پذیر ہیں، مگر ان پر یہ الزامات لگ رہے ہیں کہ وہ وہاں بیٹھ کر اپنی جماعت کے کارکنوں کو تشدد اور بدامنی پر اکسا رہی ہیں۔ اگر یہ الزامات درست ثابت ہوتے ہیں تو یہ نہ صرف بنگلہ دیش کی خودمختاری پر حملہ ہوگا بلکہ بھارت کے اس دعوے کی بھی نفی ہوگی کہ وہ خطے میں جمہوریت اور استحکام کا حامی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ بھارت کی پالیسی ہمیشہ دہری رہی ہے؛ ایک طرف وہ عالمی سطح پر جمہوری اقدار کا پرچار کرتا ہے اور دوسری طرف اپنے پڑوسی ممالک میں آمرانہ یا نیم آمرانہ حکومتوں کی پشت پناہی کرتا ہے، بشرطیکہ وہ حکومتیں بھارتی مفادات کے مطابق چلیں۔حالیہ دنوں میں نئی دہلی میں بنگلہ دیش کے ہائی کمیشن پر ہونے والا حملہ اس ذہنیت کی ایک اور خوفناک مثال ہے۔ سرکاری سرپرستی میں شیوسینا اور آر ایس ایس جیسے ہندو شدت پسند گروہوں کا سفارتی مشن پر حملہ کرنا محض ایک احتجاجی کارروائی نہیں بلکہ یہ اس انتہا پسند سوچ کا اظہار ہے جو بھارت کے اندر پنپ رہی ہے اور جسے ریاستی اداروں کی خاموش تائید حاصل ہے۔

سفارتی دفاتر پر حملہ بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے، مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ بھارت نے اس واقعے پر نہ تو سنجیدہ خوداحتسابی کی اور نہ ہی دنیا کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی کہ وہ سفارتی آداب کا احترام کرتا ہے۔بنگلہ دیش کی جانب سے احتجاجاً قونصلر اور ویزا خدمات کی معطلی ایک سخت مگر ناگزیر قدم تھا، کیونکہ خاموشی ایسے حملوں کی حوصلہ افزائی کے مترادف ہوتی۔ اس واقعے کے بعد بنگلہ دیش میں غم و غصے کی جو لہر اٹھی، وہ فطری تھی۔

چٹاگانگ میں نوجوانوں کا بھارتی ریاستی دہشت گردی کے خلاف سڑکوں پر نکل آنا اور بھارتی سفارتی پوسٹ پر پتھراؤ کرنا اس بات کی علامت ہے کہ عوامی سطح پر بھارت کے کردار کے بارے میں شدید بداعتمادی پائی جاتی ہے۔اسی پس منظر میں بنگلہ دیش کے اندر سیاسی تشدد کے واقعات بھی تشویشناک ہیں۔

این سی پی کے سینئر رہنما پر فائرنگ اور نوجوان طالب علم رہنما شریف عثمان ہادی کے مبینہ قاتل کی شناخت اس بات کا ثبوت ہے کہ ملک میں عدم استحکام پیدا کرنے کی منظم کوششیں جاری ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس تشدد سے فائدہ کسے پہنچتا ہے؟ تاریخ بتاتی ہے کہ جب بھی کسی ملک میں جمہوری عمل مضبوط ہونے لگتا ہے، تو اندرونی اور بیرونی طاقتیں مل کر اسے سبوتاژ کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ بنگلہ دیش میں بھی یہی منظرنامہ بنتا دکھائی دے رہا ہے، جہاں ایک طرف عوام جمہوری حق کے لیے پرعزم ہیں اور دوسری طرف تشدد اور خوف کے ذریعے انھیں پیچھے دھکیلنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

ان حالات میں پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان بڑھتی ہوئی قربت ایک خوش آیند پیش رفت ہے۔ ماضی کے تلخ ابواب کے باوجود دونوں ممالک یہ سمجھنے لگے ہیں کہ اصل مسائل مشترک ہیں اور اصل خطرات بھی۔ بھارت کی بالادستی کی پالیسی، خطے میں عدم توازن، اور چھوٹے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت وہ عوامل ہیں جو پاکستان اور بنگلہ دیش دونوں کے تجربے میں شامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج دونوں ممالک کے درمیان سفارتی، تجارتی اور عوامی سطح پر روابط میں بہتری دیکھی جا رہی ہے، جو مستقبل میں خطے کے لیے ایک متبادل توازن پیدا کر سکتی ہے۔

بنگلہ دیش کے لیے اصل چیلنج یہ ہے کہ وہ آنے والے انتخابات کو واقعی آزاد، منصفانہ اور پرامن بنائے۔ اگر یہ انتخابات شفاف طریقے سے منعقد ہو جاتے ہیں تو یہ نہ صرف بنگلہ دیش کی سیاست بلکہ پورے جنوبی ایشیا کے لیے ایک مثبت مثال بن سکتے ہیں۔ پروفیسر محمد یونس کا کردار اس حوالے سے نہایت اہم ہے، کیونکہ ان کی عالمی ساکھ، غیرجانبدارانہ امیج اور عوامی اعتماد عبوری حکومت کے لیے ایک مضبوط سہارا بن سکتے ہیں۔

تاہم انھیں یہ بھی ادراک ہونا چاہیے کہ جمہوریت کے دشمن صرف اندرونِ ملک نہیں بلکہ سرحدوں کے پار بھی موجود ہیں۔ بنگلہ دیش کے عوام اب باشعور ہیں اور وہ کسی بھی بیرونی دباؤ کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ یہی شعور اگر برقرار رہا تو آنے والا وقت بنگلہ دیش کے لیے خودمختاری، جمہوریت اور استحکام کا پیغام لے کر آ سکتا ہے۔

آخر میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ بنگلہ دیش کی موجودہ جدوجہد محض ایک ملک کی سیاسی کشمکش نہیں بلکہ یہ پورے خطے کے لیے ایک امتحان ہے۔ یہ امتحان اس بات کا ہے کہ کیا جنوبی ایشیا کے ممالک بیرونی مداخلت، انتہا پسندی اور آمرانہ رجحانات سے نکل کر حقیقی جمہوری اقدار کو اپنا سکتے ہیں یا نہیں۔ بنگلہ دیش اگر اس امتحان میں سرخرو ہوتا ہے تو یہ کامیابی صرف اس کی نہیں بلکہ ان تمام اقوام کی ہوگی جو خودمختاری، آزادی اور عوامی حق حکمرانی پر یقین رکھتی ہیں۔

Similar Posts