خوشبو کی شاعرہ پروین شاکر

کچھ تو ترے موسم ہی مجھے راس کم آئے

اورکچھ مری مٹی میں بغاوت بھی بہت تھی

 یہ شعر ہے پروین شاکر کا جن کی شخصیت پر آج کی نشست میں بات کریں گے۔ پروین شاکر خوش نصیب شاعرہ جن کی شاعری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی شاعری میں سماج کی مجبور و مظلوم خواتین کی ترجمانی کرتی تھیں۔

مطلب یہ کہ جو خواتین ظلم و جبر کا شکار تھیں پروین شاکر ان خواتین کی آواز تھیں، ایسا بھی نہیں تھا کہ پروین شاکر فقط خواتین کی پسندیدہ شاعرہ تھیں بلکہ پروین شاکر کی شاعری خواتین کے ساتھ ساتھ مرد حضرات بھی بڑے ذوق و شوق سے پڑھتے و سنتے تھے یوں وہ خواتین و حضرات دونوں کی پسند بن گئی تھیں۔ پروین شاکر نے جس گھرانے میں 24 نومبر 1952 میں جنم لیا وہ گھرانہ تعلیم یافتہ گھرانہ تھا۔

پروین کے والد محترم شاکر حسین شاکر نہ صرف کھلے ذہن کے مالک تھے بلکہ وہ ایک اچھے شاعر بھی تھے، چنانچہ انھوں نے اپنی بیٹی پروین شاکر کی ہر میدان میں رہنمائی کی اور کبھی بھی اپنی بیٹی کی خواہشات کے حصول میں رکاوٹ نہیں بنے۔ شاکر حسین شاکر کی یہ خواہش تھی کہ ان کی بیٹی اعلیٰ تعلیم حاصل کرے اور ایک اعلیٰ و خود دار زندگی جئے۔ اگرچہ جس زمانے میں پروین شاکر نے جنم لیا تھا، اس زمانے میں لڑکیوں کا تعلیم حاصل کرنا کوئی آسان عمل نہ تھا گوکہ آج ہم 21 ویں صدی میں جی رہے ہیں، اس صدی کے 25 برس گزار چکے ہیں لیکن پھر بھی لڑکیوں کے لیے تعلیم کا حصول کوئی مثالی عمل نہیں۔ مطلب آج بھی لڑکیوں کے راستے میں مشکلات ہیں، حصول تعلیم کے معاملے میں بہرکیف پروین نے میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد مزید حصول تعلیم کا سلسلہ جاری رکھنے کا فیصلہ کیا اور سرسید کالج میں داخلہ لے لیا اور بی اے کی ڈگری حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔

مگر اب بھی گویا ان کا عزم تھا کہ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں چنانچہ مزید حصول تعلیم کے لیے سرسید کالج میں ہی داخلہ لے لیا اور انگریزی ادب میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی مگر حصول تعلیم کے لیے ابھی تشنگی باقی تھی، چنانچہ انھوں نے کراچی یونیورسٹی کا رخ کیا اس بار انھوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ لسانیات میں ایم اے کریں گی اپنے ارادوں میں چٹان کی مانند مضبوط پروین شاکر نے ایم اے لسانیات کی ڈگری بھی حاصل کر لی اور اس کے بعد انھوں نے عبداللہ کالج میں ملازمت اختیار کر لی گویا انھوں نے نوجوان نسل کو تعلیم یافتہ بنانے کا عمل شروع کر دیا۔

اب پروین شاکر ایک طالب علم پروین شاکر نہیں تھیں بلکہ اب وہ پروفیسر پروین شاکر تھیں جب کہ کراچی یونیورسٹی میں بھی تعلیمی خدمات انجام دیں جب کہ انھوں نے ہاورڈ یونیورسٹی سے پبلک ایڈمنسٹریشن کی ڈگری حاصل کی اگر پروین شاکر کی نجی زندگی کا جائزہ لیا جائے تو 1976 میں جب ان کی عمر عزیز 24 برس تھی۔ ان کی شادی ان کے خالہ زاد سے انجام پائی، اس شادی میں ان کی اپنی مرضی بھی شامل تھی۔ ان کے شوہر نذیر علی ملٹری میں ڈاکٹر تھے۔ دونوں کی زندگی خوشگوار طریقے سے گزر رہی تھی، خداوند کریم نے ان کو ایک بیٹا بھی عطا کیا جس کا نام مراد علی رکھا گیا۔ البتہ بعدازاں ان کے درمیان فصیل کھڑی ہو گئی اور انجام کار معاملہ علیحدگی تک چلا گیا۔ ان میاں بیوی کے درمیان مکمل علیحدگی ہو گئی۔ اس تلخ ترین حقیقت کو پروین شاکر نے ان الفاظ میں اپنی شاعری کی زبان میں بیان کیا کہ:

کیسے کہہ دوں کہ مجھے اس نے چھوڑ دیا

بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی

اپنے شوہر سے علیحدگی کے بعد سب سے اہم ترین مسئلہ ان کے سامنے تھا۔ اپنے بیٹے مراد علی کی کفالت و اس کی تعلیمی ذمے داریوں کا چنانچہ سول سروس کی ملازمت اختیارکر لی۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ جب اس ملازمت کے لیے ان کے سامنے ایک سوال نامہ رکھا گیا تو اس سوال نامے میں ایک سوال ان کے اپنے بارے میں بھی تھا۔

 باہمت پروین شاکر کے ادبی حوالے سے اگر بات کریں تو ان کے اولین شاعری کے مجموعہ کا نام تھا ’’خوشبو‘‘ یہ کتابی شکل میں 1972 میں منظر عام پر آیا۔ غزلوں پر مشتمل شعری مجموعہ جب لوگوں نے پڑھا تو ہر جانب پروین شاکر کی شاعری کا چرچہ ہونے لگا۔ ’’خوشبو‘‘ پروین شاکر کی اگرچہ اولین کتاب تھی مگر ’’خوشبو‘‘ لکھنے پر پروین شاکر کو آدم جی ادبی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ البتہ 1980 میں ان کی کتابیں اہل ذوق کے ہاتھوں میں تھیں، صد برگ و خودکلامی یہ دونوں شعری مجموعے بے حد پسند کیے گئے، گویا اب پروین شاکر کو ایک عظیم شاعرہ تسلیم کر لیا گیا تھا۔

1990 میں ایک اور شعری مجموعہ عوام الناس سے پذیرائی حاصل کرنے کے لیے شائع ہوگیا، اس بار پروین شاکر نے جو لفظوں کے موتی پروئے تھے ان کا نام تھا انکار۔ یہ بھی بے حد پسندیدگی حاصل کرنے والی کتاب تھی۔ البتہ 1994 میں ان کی آخری کتاب شاعری کی چھپی اس کا نام تھا ماہ تمام۔ پروین شاکر کو ان کی شاعری پسند کرنے والوں نے بڑی محبت و احترام کے ساتھ خوشبو کی شاعرہ کا خطاب دیا تھا۔ خوشبو کے حوالے سے ان کا ایک شعر بہت مقبول ہے اور آج بھی ذوق و شوق سے پڑھا جاتا ہے کہ:

وہ تو خوشبو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا

مسئلہ پھول کا ہے پھول کدھر جائے گا

ان کو جن اعزازات سے نوازا گیا ان میں آدم جی ادبی ایوارڈ، فیض احمد فیض ایوارڈ، USIS ایوارڈ، انٹرنیشنل ایوارڈ۔ پروین شاکر کی شاعری کو حکومتی سطح پر بھی تسلیم کیا گیا اور انھیں پرائڈ آف پرفارمنس سے نوازا گیا۔ البتہ 26 دسمبر 1994 بروز منگل صبح کے وقت جب اسلام آباد میں بارش ہو رہی تھی تو پروین شاکر ایک کار میں سوار ہو کر کہیں جا رہی تھیں تو ایسا سانحہ ہو گیا کہ جس نے پورے پاکستان کی فضاؤں کو سوگوار کر دیا۔ یہ خبر جس نے بھی سنی دل تھام کے رہ گیا ۔ خبر یہ تھی کہ خوشبو کی شاعرہ پروین شاکر روڈ ایکسیڈنٹ میں جاں بحق ہو گئیں۔ مزید تفصیل یہ تھی کہ ان کی کار کو ایک بس نے ٹکر ماری جس کے باعث پروین شاکر شدید زخمی ہو گئیں ان کو فوری طور پر اسپتال پہنچایا گیا مگر وہ زیادہ خون بہہ جانے کے باعث انتقال کر گئیں۔

ان کی وفات کی خبر سن کر ہر جانب تعزیت کا سلسلہ شروع ہو گیا اس وقت کی وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی تعزیت کا اظہار کیا۔ ایک عرصے کے بعد پروین شاکر کے بیٹے BBC کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ نے خصوصی ہدایات دیں کہ جب تک مراد علی گریجویشن نہ کر لے اسے سرکاری گھر سے بے دخل نہ کیا جائے جب کہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے مراد علی کی کفالت اور تعلیمی اخراجات کا ذمہ خود لے لیا اور 5000 ہزار روپے مراد علی کا وظیفہ مقرر کر دیا۔ جمعہ 26 دسمبر 2025 کو پروین شاکر کے مداحوں نے ان کی 31 ویں برسی بڑی عقیدت و احترام کے ساتھ منائی اور ان کے درجات کی بلندی کے لیے خصوصی دعائیں کی گئیں۔ ہم بھی دعا گو ہیں کہ مالک الملک پروین شاکر کے درجات بلند فرمائے۔

Similar Posts