پاکستان اور بھارت میں چوں کہ عیسائی برادری اقلیت میں شمار ہوتی ہے یہاں بھی عیسائیوں نے اپنے اس مذہبی تہوارکو پوری عقیدت و احترام کے ساتھ منایا۔ حکومتی سطح پر وزیر اعظم سے لے کر چیف آف ڈیفنس اسٹاف فیلڈ مارشل عاصم منیر تک سب نے کرسمس کی تقریبات میں شرکت کی اور اقلیتوں کے آئینی حقوق کے تحفظ سے لے کر قومی زندگی میں ان کے کردار و عمل پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے انھیں یقین دلایا کہ وطن عزیز میں ان کے آئینی و قانونی حقوق کا مکمل تحفظ کیا جائے گا اور قائد اعظم کے وژن اور فرمودات کے مطابق اقلیتوں کے ساتھ مساوی برتاؤ کیا جائے گا۔
وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے وزیر اعظم ہاؤس میں کرسمس تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ہم سب کا مشترکہ وطن ہے اور اقلیتوں کو برابر کے حقوق حاصل ہیں، مذہب کے نام پر کسی کو من مانی نہیں کرنے دیں گے، سب کو مذہبی آزادیاں حاصل ہیں اور اگر اقلیتوں کے ساتھ زیادتی ہوئی تو قانون پوری طرح حرکت میں آئے گا۔ وزیر اعظم نے قومی زندگی کے مختلف شعبوں طب، تعلیم، دفاع سمیت مختلف شعبوں میں مسیحی برادری کے کردارکو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اس یقین کا اظہار کیا کہ مسیحی برادری اسی جوش و جذبے کے ساتھ قومی یکجہتی میں اپنا کردار ادا کرتی رہے گی۔ حکومت ان کے تحفظ کو ہر صورت یقینی بنائے گی۔
چیف آف ڈیفنس اسٹاف فیلڈ مارشل عاصم منیر نے راولپنڈی کے کرائسٹ چرچ میں منعقدہ کرسمس تقریب میں شرکت کی اور مسیحی برادری سے اظہار یکجہتی کیا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق فیلڈ مارشل نے مساوات، آزادی اور مذہبی رواداری کے قائد اعظم کے وژن کو اجاگر کیا اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کو پاکستان کے نظریے کی بنیاد قرار دیا۔
انھوں نے واضح طور پر کہا کہ پاکستان کی اصل طاقت مساوی مواقع اور مذہب، نسل، ذات اور عقیدے سے بالاتر مشترکہ آئینی اقدار میں مضمر ہے۔ فیلڈ مارشل نے قومی ترقی اور سلامتی کے لیے پاکستانی مسیحیوں کی پائیدار خدمات کو سراہتے ہوئے آئین پاکستان میں درج تمام شہریوں کے وقار، تحفظ اور مساوی حقوق کے دفاع کے لیے افواج پاکستان کے عزم کا اعادہ کیا۔
پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے دستور میں واضح طور پر لکھا ہے کہ پاکستان کے تمام شہری قانون کی نگاہ میں برابر ہیں، ان کے مابین نسل، رنگ اور مذہب کی بنیاد پر کوئی فرق نہیں ہے۔ آئین کے آرٹیکل 25 کے تحت صنفی امتیاز بھی ختم کر دیا گیا ہے اور عورتوں و مردوں کو بحیثیت شہری مساوی درجہ دیا گیا ہے۔ قائد اعظم نے اپنی 11 اگست کی مشہور تقریر میں صاف الفاظ میں کہا تھا کہ پاکستان میں آپ آزاد ہیں، آپ اپنے مندروں میں جائیں، اپنی مساجد میں جائیں یا کسی اور عبادت گاہ میں، آپ کا کسی مذہب، ذات پات یا عقیدے سے تعلق ہو، کاروبار مملکت کا اس سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ قائد اعظم کا کہنا تھا کہ میں سمجھتا ہوں کہ جیسے جیسے زمانہ گزرتا جائے گا نہ ہندو، ہندو رہے گا، نہ مسلمان، مسلمان۔ مذہبی اعتبار سے نہیں، کیوں کہ یہ ذاتی عقائد کا معاملہ ہے بلکہ سیاسی اعتبار سے اور مملکت کے شہری کی حیثیت سے۔ آپ قیام پاکستان کے پس منظر میں جھانکیں تو معلوم ہوگا کہ ہندوستان میں مسلمان اقلیت میں تھے اور قائد اعظم مسلم اقلیت کے حقوق کے سب سے بڑے علم بردار تھے، انھوں نے اپنی متعدد تقاریر میں واضح طور پر کہا کہ ہندو اور مسلمان دو قوموں میں صرف مذہب کا فرق نہیں بلکہ ہمارا کلچر بھی ایک دوسرے سے الگ ہے۔
ہمارا دین ہمیں ایک ضابطہ حیات دیتا ہے جو زندگی کے ہر شعبے میں ہماری رہنمائی کرتا ہے اور ہم اس ضابطے کے مطابق زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں۔ قائد کا یہی دو قومی نظریہ ہندوستان کی اقلیت مسلم قوم کا ترجمان ان کی یکجہتی اور تحریک پاکستان کا محرک بنا اور قائد نے ہندوستان کی تقسیم کے ذریعے مسلم اقلیت کے لیے ایک آزاد و خود مختار وطن پاکستان حاصل کیا۔ انھوں نے اول دن سے پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی بات کی۔ دوسری طرف ہندوستان میں آج بھی اقلیتوں کے ساتھ ہندوؤں کے ناروا سلوک کے واقعات دنیا بھر میں ہندوستان کے سیکولر اسٹیٹ کے چہرے کو بری طرح داغ دار کر رہے ہیں۔ تازہ ترین مثال 25 دسمبر کو یوم کرسمس کے موقع پر ہندوستان کے مختلف شہروں میں عیسائیوں پر ہونے والے حملوں سے دی جا سکتی ہے۔
بھارت کے بڑے شہروں آسام، اترپردیش، مدھیہ پردیش، اترکھنڈ، کیرالہ، نئی دہلی و دیگر ریاستوں میں انتہا پسند ہندوؤں نے مسلمانوں کی طرح عیسائیوں کے ساتھ بھی اپنی کھلی نفرت کا اظہار کرتے ہوئے چرچز پر حملے کیے، کرسمس کی سجاوٹ کو تہس نہس کیا، دکانوں، گھروں پر حملے کیے اور کرسمس تقریبات کو سبوتاژ کر کے ثابت کر دیا کہ بھارت میں آج بھی انتہا پسند ہندوؤں کا غلبہ ہے اور وہاں مسلمان، سکھ، عیسائی اور دیگر اقلیتوں کو سرعام تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ان کی عزت، جان، مال، املاک اور مذہبی تقریبات کچھ بھی محفوظ نہیں۔ اس پہ مستزاد مودی سرکار کی اقلیتوں کے تحفظ کے حوالے سے معنی خیز خاموشی سوالیہ نشان ہے کہ خود مودی گجرات میں مسلمانوں پر تشدد کے مجرم ہیں۔