رہنما پیپلز پارٹی ڈاکٹر نفیسہ شاہ کا کہنا ہے کہ حقوق بلوچستان پیکج جیسے اقدامات ہی دیرپا امن کی کنجی ہیں، اس وقت تو سارے لوگ نالاں ہیں، لانگ ٹرم حل یہی ہے کہ ہمیں بلوچ عوام کے حقوق کو اور جمہوری چیلنجز کو ساری جماعتوں کو راؤنڈ ٹیبل پر حل کرنا چاہیے۔ خرم دستگیر نے کہا کہ جو دہشتگردی کرنے والے لوگ ہیں یہ نہ تو حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں اور نہ ہی وسائل کی جنگ لڑ رہے ہیں، یہ پاکستان اور ریاست کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ ہمایوں مہمند نے کہا کہ لواحقین سے کہا جاتا کہ دیکھیں یہ تمہارے لواحقین مسنگ پرسن ہیں اور دیکھو کہ یہ کیا کر رہے ہیں اور یہ اچھا موقع ہے کہ آپ اپنے اوپر سے وہ الزامات ہٹا دیتے۔
آج نیوز کے پروگرام اسپاٹ لائٹ میں میزبان منیزے جہانگیر سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر نفیسہ شاہ رہنما پاکستان پیپلز پارٹی نے کہا کہ میں تو چاہوں گی کہ وہاں کے حالات بارے بلوچستان کی حکومت سے پوچھ لیں، ان کے پاس زمینی حقائق ہوں گے، وہاں کی حکومت کو بہتر معلوم ہوگا ان مسائل کے حوالے سے۔
نفیسہ شاہ نے کہا کہ میں ضرور کہوں گو کہ ہم وفاق میں ہیں لیکن سندھ میں ہماری پارٹی کو کافی تحفظات ہیں، جہاں 60 فیصد پانی کی کمی ہے اس وقت۔ اپ اسٹریم پھر سے موڑا گیا ہے، اس قسم کی بے چینی ہے، ایک طرف تو حکومت اسٹیڈ لے رہی ہے کہ دہشتگردی کے ساتھ کمپرومائز نہیں کرنا ہے ، اس کا خاتمہ کرنا ہے، نیشنل اتحاد کی بات کر رہے ہیں لیکن ہر لیول پر سیاسی ایشوز ہیں جہاں ان سے بات کرنی ہوگی۔
انھوں نے کہا کہ ایک طرف دہشتگردی ہے تو دوسری جانب سیاسی مسئلہ ہے، اسی طرح سندھ میں بھی بہت سیاسی ایشو ہے کینال کا اور جتنا جلدی ہو سکے وفاقی حکومت اعلان کرے یہ مسائل ہیں سی سی آئی میں لے جائیں گے اور کنٹنسز کی بنیاد پر ان کو حل کیا جائے گا، کینال کی گنجائش نہیں اسی طرح کے پی میں مائنز کا جو ایشو ہے وہ بھی سیاسی ہے، حکومت فی الفور ہمارے کسانوں کے مسائل حل کریں کہ وہ فاقہ کشی پر مجبور نہ ہوں۔
نفیسہ شاہ نے کہا کہ ہمایوں مہمند نے اچھی بات کی کہ کمپلیکس ہسٹری ہے اور سیریز آپریشن بھی ہوئے اور اب سے نہیں ہوئے یہ بہت پیچیدہ اور گھبیر مسئلہ ہے، اس کو سلجھانے کے لیے ملٹری پلس اپروچ چاہییں، ملٹری سلوشن کچھ حد تک ٹھیک ہے، کہیں نہ کہیں پھر وہی مسائل ہو جاتے ہیں، زرداری صاحب نے ایک اچھا پیکج دیا تھا آغازِ حقوق بلوچستان، ہمیں جو بلوچ لوگ ہیں جو وہاں رہ رہے ہیں، ریاست کو ان کے ساتھ جو امن پسند لوگ ہیں ان کو اور قریب لانا ہے، اگر فوج کو لڑنا ہے اور مقامی لوگ ساتھ نہیں دیں گے تو فوج کامیاب نہیں ہوگی۔
رہنما پیپلز پارٹی نے کہا کہ ہارڈ اپروچ اپنی جگہ صحیح ہے جہاں آپ کی ریاست کی رٹ چیلنج ہو رہی ہے، جہاں بین الاقوامی قوتیں اور سازش میں ملوث ہیں وہاں تو ٹھیک ہے لیکن کہیں نہ کہیں بیک ڈور رابطے ضروری ہیں کیوں کہ ہماری سیاسی حکومت ہیں، اخترمینگل خود منجھے ہوئے سیاست دان ہیں اور مجھے یقین ہے کہ وہ بھی چاہیں گے کہ ڈائیلاگ کے ذریعے یہ معاملہ حل ہو۔ ضروری یہ ہے کہ وہاں ایک دھرنا ہے اس کو ختم کرنا ہے اورمجھے یقین ہے کہ ڈائیلاگ آپشن وہاں ہیں، لانگ ٹرم حل یہی ہے کہ ہمیں بلوچ عوام کے حقوق کو اور جمہوری چیلنجز کو ساری جماعتوں کو راؤنڈ ٹیبل پر حل کرنا چاہیے۔
نفیسہ شاہ نے مزید کہا کہ رول آف لا یہ کہتا ہے کہ لوگ آپ کے ساتھ جڑ جائیں گے اور جو کئی ایسے مسنگ لوگ جو ریاست کے ساتھ پہاڑوں پر لڑنے گئے ہیں وہ تو ایکسپوز ہو جائیں گے، لوگ ساتھ دیں گے، جب آپ انصاف کریں گے اس وقت تو سارے لوگ نالاں ہیں، اس لیے بہت ضروری ہے کہ جوڈیشل سسٹم اور پاکستان کے آئین اور قانون کے ساتھ اس کو ڈیل کریں۔
خرم دستگیر
بلوچستان کے حوالے سے مسئلہ ملٹری ہے یا سیاسی کے سوال خرم دستگیر رہنما مسلم لیگ ن نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت کے سامنے تجویز بھی ہے، جتنے بھی لاپتہ افراد ہیں ان کے کیسز کو شفاف طریقے سے حل ہوں۔ اس کے لیے کوئی قانون سازی کرنی پڑے ، چونکہ یہ معاملہ 2012 سے چل رہا ہے اس پر فیصلہ کن طور پر آگے بڑھنا ہے اس کو اور انشااللہ مکمل کرنا ہے۔
انھوں نے کہا کہ لاپتا افراد میں کچھ لوگ دہشت گرد ہیں ان میں سے کچھ افغانستان میں ہیں، کچھ کے ساتھ حقیقتا ظلم ہوا۔ جو احتجاج کرنے والی خاتون ہیں جنھیں پکڑا گیا، ان پر الزام یہ ہے کہ وہ تیرہ میتوں پر کلیم کیا کہ یہ تو مسنگ پرسن ہیں ہمیں دے دیں اور وہ لوگ اسپتال سے باڈیز کو اٹھا کر لے گئے، جب قانون کی بات کرتے ہیں تو کیا یہ قانون ہے؟
خرم دستگیر نے کہا کہ وہاں کی بلوچستان حکومت کا کہنا ہے کہ یہ تو وہ لوگ تھے جو جعفرایکسپریس میں جنھوں نے حملہ کیا۔ ناحق پاکستانیوں کا خون کیا یہ ان کی باڈیز تھیں، اس پر بحث ہو سکتی ہے ایک ایسے بلوچستان میں واقعات ہوئے ہیں، ایک دن میں چار بہ یک وقت حملے ہوئے تھے۔ بلوچستان میں، ایک طرف تو مسنگ پرسن کے ساتھ ہمیں ہمدردی ہے اور حکومت کا فرض ہے اس کو حل کرے اور جو بلوچستان پر حملے ہو رہے ہیں اس سے بھی سختی سے نمٹنا ہے، لیکن جو دہشتگردی کرنے والے لوگ ہیں یہ نہ تو حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں اور نہ ہی وسائل کی جنگ لڑ رہے ہیں، یہ پاکستان اور ریاست کے خلاف لڑ رہے ہیں۔
ہمایوں مہمند
ڈاکٹر ہمایوں مہمند رہنما پی ٹی آئی نے گفتگو میں کہا کہ آج جو مسائل ہیں اس کا بیک گراؤنڈ سیاسی ہے، اس سے قبل بلوچستان اسٹودنٹ آرگنائزیشن بنی تھی یہ وہ بی ایس او تھی جو بلوچستان کے سیاسی رائیٹس تھے، ان کے لیے کھڑی تھی، 1970 میں جب بلوچستان میں سیاسی جماعت جیتی تھی اس کو ہٹا کر وہاں پر ایمرجنسی لگا دی گئی تھی۔
انھوں نے کہا کہ کافی حد تک چیزیں کم ہو گئیں تھی، پھر یہ مسئلہ 2002 میں شروع ہوا جب مشرف کے دور میں بغتی کے خلاف ہوا تھا۔ اس کے بعد بی ایل او آ گئی۔ جو لوگ غائب ہو جاتے ہیں دو طریقے سے ہوتے ہیں، ایک وہ جو افغانستان یا پہاڑوں پر نکل جاتے ہیں اور کوئی مجھے فنڈنگ دے رہا ہے، اور ان کے سیاسی لیڈر پیسا کھا رہے ہیں اور لگا نہیں رہے تو وہ کسی وجہ سے غلط طرف چلے جاتے ہیں۔
ہمایوں مہمند نے کہا کہ نمبر دو یہ کہ بہت سارے لوگوں کو اٹھا لیا جاتا ہے، اس کا حل یہ ہے کہ کنٹرول میں ہوتا ہے یہ جو باڈیز تھیں تو ان کے لواحقین سے کہا جاتا کہ دیکھیں یہ تمہارے لواحقین مسنگ پرسن ہیں اور دیکھو کہ یہ کیا کر رہے ہیں اور یہ اچھا موقع ہے کہ آپ اپنے اوپر سے وہ الزامات ہٹا دیتے۔
آج نیوز کے پروگرام میں وکیل عمران بلوچ نے بھی گفتگو کی اور کہا کہ این جی او کا جو سیکشن تھری ہے اس کے تحت متعلقہ انسان کو نوٹس کیا جاتا ہے، پھرپبلیکشن کی جاتا ہے اور میڈیا کے توسط اسے بلایا جاتا ہے، الزامات اس کے سامنے بتائے جاتے ہیں اوراسے دفاع کا موقع دیا جاتا ہے، جس کے لیے پندرہ دن دیے جاتے ہیں، ہمارے کلائنٹ کو نہ تو نوٹس جاری کیا گیا نہ اسے کیس میں دفاع کا موقع دیا گیا۔