انیسویں صدی میں عجائبات اور فراڈ کے بادشاہ سمجھے جانے والے پی ٹی بارنم نے دنیا کو ایک ایسی مخلوق کے وجود پر یقین دلا دیا، جس کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہ تھا۔ جی ہاں، بات ہو رہی ہے بدنام زمانہ ”فجی مرمیڈ“ کی — ایک ایسی مخلوق جو دیکھنے میں آدھی مچھلی اور آدھی چھوٹے سے انسان جیسی لگتی تھی۔
1842 میں بارنم نے نیویارک کے بڑے اخبارات جیسے ”نیویارک ہیرلڈ“ کو اس عجیب و غریب جل پری کی خبریں شائع کرنے پر آمادہ کیا۔ ان خبروں نے عوامی تجسس کو ہوا دی اور لوگ جوق در جوق اسے دیکھنے بارنم کے عجائب گھر کا رخ کرنے لگے۔
یہ مخلوق بارنم کے بنائے گئے ”امریکن میوزیم“ میں پیش کی گئی، جہاں قدرتی ماہرین سے لے کر عام افراد تک سب اس کے سحر میں مبتلا ہو گئے۔

تاہم، بعد میں تحقیق سے انکشاف ہوا کہ یہ ”فجی مرمیڈ“ دراصل ایک بندر کے دھڑ کو ایک بڑی مچھلی کے پچھلے حصے کے ساتھ سی کر بنائی گئی تھی — یعنی ایک مکمل جعل سازی۔
مورخین کے مطابق یہ نمونہ اصل میں 1822 کے آس پاس جاپانی ملاحوں نے تیار کیا تھا، اور اصل مجسمہ بعد میں ایک آگ میں جل کر خاک ہو گیا۔ البتہ دنیا بھر میں کئی عجائب گھر آج بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے پاس ”اصلی“ فجی مرمیڈ موجود ہے۔
بارنم کو اس قسم کے فراڈز میں مہارت حاصل تھی۔ وہ ایک موقع پر یہ بھی دعویٰ کر چکا تھا کہ اس نے ایک ایسی غلام عورت کو خریدا تھا جو جارج واشنگٹن کی آیا رہی تھی۔ اس کے عجائب گھر میں جعلی جنات جیسے نمونے بھی رکھے گئے تھے۔
قریب ایک صدی بعد، مشہور ماہرِ عجائبات رابرٹ رپلی نے فجی مرمیڈ کو اپنی نیویارک کی عجائب گاہ میں اس اعلان کے ساتھ رکھا کہ یہ ایک مکمل فراڈ ہے۔ اس نے لوگوں کو بتایا کہ یہ محض ایک فنکارانہ چال ہے، حقیقت نہیں۔

آج بھی دنیا بھر کے ”Ripley’s Believe It or Not“ مراکز میں ”فجی مرمیڈز“ موجود ہیں۔ کچھ پرانے سرکسوں کے نمونے ہیں، جبکہ کئی ماڈرن فنکاروں جیسے خوان کابانا کے بنائے گئے ہیں۔
کابانا کی جل پریوں میں بعض کے ہاتھ مرغی یا مگرمچھ جیسے بنائے گئے ہیں، جن کا ڈھانچہ اسٹائروفوم سے تیار ہوتا ہے، اور اس پر اصلی مچھلی کی کھال چڑھا کر خشک کر دی جاتی ہے۔