نادرن بائی پاس پرلگنے والی ایشیاء کی سب سے بڑی مویشی منڈی کی آج 2025 میں سلور جوبلی ہوچکی ہے آج سے 25 برس قبل یہ مویشی منڈی کبھی الآصف اسکوائر پر لگا کرتی تھی وہاں بلند و بالا عمارتیں، فلیٹس اورمکانات کی تعمیر ہوئی، لوگ آباد ہوئے تو پھر اس مویشی منڈی نے سہراب گوٹھ سے کچھ فاصلے پر اپنا پڑاو ڈالا، آہستہ آہستہ وہاں بھی رہائشی سوسائیٹیز بننے لگیں اور لوگوں کو مویشی منڈی کے پڑاو سے کوئی تکلیف نہ پہنچے مویشی منڈی انتظامیہ نے اپنا تیسرا پڑاو نادرن بائی پاس پر ڈال لیا اورعرصہ تین سے سال سے وہاں ڈیرہ جمائے ہوئے ہے۔
2025 میں لگنے والی مویشی دوست منڈی کا باقاعدہ افتتاح میئرمرتضٰی وہاب، ڈپٹی میئرسلمان عبداللہ مراد اورٹاون چیئرمین منگھوپیرحاجی نوازبروہی کے ہمراہ انیس اپریل کو کیا جاچکا ہے اب یہ میلہ مویشیاں عام شہریوں اوربیوپاریوں کے لیے باقاعدہ فنکشنل ہے جہاں انہیں ضروریات زندگی کی ہرسہولت حاصل ہے یہ صرف قربانی کے جانوروں کی مویشی منڈی ہی نہیں بلکہ ملکی معیشت کا ایک بڑا حب کہلاتی ہے جہاں ہر سال تقریبا تین سے چارلاکھ قربانی کے جانور جن میں ہر رنگ و نسل کی گائے، بیل ، بچھڑے، اونٹ، دنبے، بکرے اور وی وی آئی پی بلاکس میں مختلف فارم ہاوسز پر پلے بڑھے خوبصورت ہیوی جانور کراچی سمیت اندروں ملک کے چھوٹے بڑے شہروں سے اس میلہ مویشیاں کی زینت بنتے ہیں، بیوپاریوں کے لیے ایک ہزار سے بارہ سو ایکٹررقبے پر قائم اس مویشی منڈی میں جانوروں کی تعداد کو دیکھتے ہوئے مزید وسعت دینے کی گنجائش ہے۔
آپ ایک لمحہ کو ذرا سوچیں کراچی شہر جو کم و بیش تین کروڑ نفوس پر مشتمل ہے اور لگ بھگ 20 سے پچاس لاکھ شہری تو ایسے ہیں جو سنت ابراہیمی کے جذبے سے سرشار ہوکر قربانی کرتے ہیں اور یہ مویشی منڈی تمام ترسہولیات کے ساتھ انہیں کم و بیش چارسے پانچ لاکھ مویشی قربانی کے لیے فراہم کرنے کا ذریعہ بنتی ہے شہر قائد جو آج بھی مسائل میں انبار گھرا ہے ہر گلی محلہ میں پانی اور بجلی کی قلت ہے ؟ روڈ راستوں کی صورتحال ابتر ہے، جگہ جگہ گٹر ابل رہے ہیں، شہر میں ہر جگہ صفائی ، ستھرائی اورسیکورٹی کا فقدان ہے ایسے میں اس عارضی شہر میں چوبیس گھنٹے پانی اور بجلی کی بلا تعطل فراہمی، لاکھوں جانوروں کو پینے کے پانی، چارے کی فراہمی ، ہزاروں گاڑیوں کے لیے پارکنگ کی جگہ، بیوپاریوں اورخریداروں کے لیے عارضی بینک اور اے ٹی ایم مشین کی سہولیات، عارضی بیت الخلاء کا قیام اور ضروریات زندگی کے لیے ایک مختصر وقت میں یہ سب سہولیات فراہم کرنا آسان نہیں ؟ یہ ملکہ صرف نادرن بائی پاس مویشی منڈی انتظامیہ کو ہی حاصل ہے جہاں آپ کو ایک چھت تلے آسٹریلین بل بھی نظر آئے گا، چولستانی اور ریگستانی نسل کی گائے بھی ملے گی ،ساہیوال،سبی ،گلابی اورسندھی نسل کے گائے،بیل،بچھڑے بھی میسر ہوں گے ایک چھت تلے تمام رنگ ونسل کے جانوروں آپ کو مل جاتے ہیں اور ایسا پورے ایشیاء میں کہیں بھی کسی ملک کی مویشی منڈی نظر نہیں آئے گا ؟
کہیں گائے ہوگی تو اونٹ نہیں ملے گا اور اونٹ ہو گا توبکرا نایاب ہوگا تو بیل دستیاب نہیں ہوگا ؟ تو کہیں آسٹریلیئن لوگوں کی دسترس سے باہر ہوگا اور یہ سب آپ کو اس مویشی منڈی میں نظر آئیں گے یہی وجہ ہے کہ اسے ایشیاء کی سب سے بڑی مویشی منڈی کہا جاتا ہے یہ مویشی منڈی صرف قربانی کے جانوروں کی خرید وفروخت کا ذریعہ نہیں بنتی بلکہ پورے یہاں سے پورے پاکستان کی معیشت کا پہیہ چلنا شروع ہوجاتا ہے ایک بیوپاری جو پنجاب کے شہر شیخوپورہ ، شیخان وان، ملتان سندھ اوربلوچستان کے شہروں دور دراز علاقوں سے کراچی آتا ہے تو وہاں گاڑی والے کا بھاڑا لگتا ہے۔
ٹول ٹیکس کی مد میں ضلعی حکومتوں کے پاس روینیو جاتا ہے پھر چارے اورپانی فروخت کرنے والوں کی قسمت جاگ اٹھتی ہے ایک جانور جب اس مویشی منڈی سے لد کر شہری گھر لے جاتا ہے ، غریب سوزوکی اور ڈالے والے کی دھاڑی لگتی ہے، لوڈر کو پیسے ملتے ہیں ، قربانی کے بعد لاکھوں کی تعداد میں کھالیں امپورٹ ہوتی ہیں ہر شخص کا کاروبار چمک اٹھتا ہے ایک غریب بیوپاری کتنے لوگوں کے روزگار کا ذریعہ بنتا ہے ، بیوپاری کے سارے سال کی کمائی ان مویشیوں کی خریدو فروخت سے جڑی ہے ان کا سال بھر کا خرچہ نکل آتا ہے جس سے وہ اپنی بیٹیوں کی شادی کرتا ہے ،غلہ جمع کرتا ہے پھرنئے سال کے لیے قربانی کے جانور خرید کرانہیں پالتا ہے انہیں بڑا کرتا ہے اور پھر ہماری نصرت کے لیے ناز نخروں سے پلے یہ خوبصورت جانوردوبارہ اس مویشی منڈی میں لے آتا ہے اور ہم صرف اتنی خوبیوں کو نظر انداز کرکے صرف لال ڈبہ چلانے اور بریکنگ بنانے کے چکرے میں ان سب کا کاروبار متاثر کرتے ہیں ملکی معیشت کی کمر توڑ دیتے ہیں ہمیں تو ان بیوپاریوں کا شکریہ ادا کرنا چاہیے جو ہمارے لیے قربان کے جانوراپنے گھروں میں پال کر کراچی لاتے ہیں۔
کیا ہم یہ جانور اپنے فلیٹوں میں پال سکتے ہیں ؟ کیا ہم انہیں چارہ کھلانے پانی پلانے کے لیے ان دیکھ بھال کے لیے وقت نکال سکتے ہیں ؟ تپتی دوپہر میں بیٹھا یہ بیوپاری نہیں ہمارا محسن ہے جو ہمارے لیے ایثار کا جذبے سے سرشار ہوکر ہمارے لیے خوبصورت ہر رنگ و نسل کے جانور قربانی کے لیے ہمارے دروازے پر لے آیا ہے میں ہر خریدار شہری سے کہوں گا کہ جب وہ جانور خریدیں تو قربانی نیت کو دیکھتے ہوئے خریدے انشاء اللہ آپ کو آپ کی جیب کی سکت کے مطابق آپ کا جانور ضرور مل جائے گا۔
میں سندھ حکومت سے مویشی منڈی کے اطراف شاہراہوں سخت سیکورٹی فراہم کرنے کی بھی اپیل کرتا ہوں ، پیپلزپارٹی حکومت چاہیئے کہ وہ شہریوں اور ملک بھر سے آنے والے بیوپاریوں کو پریشانی سے بچانے کے ہر ممکن اقدامات بروئے کار لائے، مویشی منڈی آنے والے راستوں پر پولیس کی پکٹس قائم کرے وہاں بہتر روشنی کا انتظام کرے اور ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کی پیوندکاری کریں تاکہ شہریوں کو کسی قسم کی کوئی پریشانی نہ ہو۔
میں وزیراعظم شہباز شریف سے بھی کہوں گا کہ وہ ببرلو کے مقام لگنے والے دھرنے کی شرکاء کی فوری داد رسی کریں اور راستوں کی بندش کی وجہ پھنس جانے والی بارہ ہزار گاڑیاں ایک ہزارکمرشل گاڑیاں، دوہزار پانچ سو آئل ٹینکرز اورقربانی کے جانوروں سے لدی سیکڑوں ٹرک اور ٹرالرز کو اس مقام سے نکالنے کی کوئی تدبیر کریں اس وقت سندھ ، پنجاب اور کے پی کو راشن و خوراک کی فراہمی بھی خطرے میں پڑچکی ہے کسٹمز میں تاخیر ہونے سے روزانہ ڈیمریج نقصانات 2 ملین ڈالر سے تجاوز کرچکا ہے، گھریلو اشیاء کی سپلائی بھی شدید متاثر ہے خاص طور پر اناج اورسبزیوں کی ترسیل میں خلل پڑرہا ہے، یورپی یونین، خلیجی منڈیوں میں ٹیکسٹائل اور سمندری غذا کی سپلائی میں 50 ملین ڈالر نقصان کا اندیشہ پیدا ہوچکا ہے یہ سب ملکی معیشت کا پہیہ ہیں خدارا اسے بند نہ کریں چلنے دیں۔