خفیہ حسابیاتی فارمولہ جو 200 ملین سال سے پرندوں کی چونچ کے ڈیزائن کی وجہ بنا ہوا ہے

0 minutes, 1 second Read

قدرت کی تخلیقات میں پرندوں کی چونچ کی شکلوں کا تنوع حیرت انگیز ہے۔ کبھی ہم نکتہ دار ہمنگ برڈ کی پتلی سی چونچ دیکھتے ہیں، تو کبھی عقاب کی تیز، چاقو جیسی چونچ۔ لیکن اب سائنسدانوں نے ایک ایسا ریاضیاتی اصول دریافت کیا ہے جو نہ صرف آج کے پرندوں بلکہ ان کے قدیم اجداد یعنی ڈائنوسارز کی چونچوں اور تھوتھنیوں کی ساخت کو بھی بیان کرتا ہے۔

یہ تحقیق، جو حال ہی میں ’آئی سائنس‘ جریدے میں شائع ہوئی ہے، بتاتی ہے کہ تقریباً تمام پرندوں کی چونچوں کی افزائش اور شکل ایک ہی بنیادی اصول پر ہوتی ہے، جسے ’پاور کیسکیڈ‘ (Power Cascade) کا نام دیا گیا ہے۔

پاور کیسکیڈ کیا ہے؟

یہ اصول بیان کرتا ہے کہ کس طرح کسی نوک دار ساخت، جیسے چونچ، دانت، سینگ یا کھال کی چوڑائی اس کے نوک سے بنیاد کی طرف بڑھتی ہے۔ یعنی ایک مخصوص ریاضیاتی تناسب کے تحت چونچ کی نشوونما ہوتی ہے۔

’جنت کے پرندے‘ انسانی آنکھوں کو پوشیدہ رنگ کے خفیہ سگنل بھیج رہے ہیں، نئی تحقیق

ڈائنوسارز اور چونچوں کی ارتقائی کہانی

ڈائنوسارز کی اکثریت دانتوں والے مضبوط تھوتھنی والے جانور تھے، جیسے مشہور ’ٹائیرا نوسورس ریکس‘ مگر کچھ اقسام، جیسے ’آرنیتھومیمس‘، دانتوں کے بجائے چونچ رکھتی تھیں۔ سائنسی تحقیق بتاتی ہے کہ ٹی۔ریکس کے گروہ (تھیروپوڈز) میں چونچیں کم از کم چھ بار آزادانہ طور پر ارتقا کے ذریعے ظاہر ہوئیں۔

ان میں سے صرف ایک گروہ 66 ملین سال پہلے کے عظیم خاتمے کے بعد زندہ بچ سکا، اور وہی جدید پرندوں کا آباؤ اجداد بنا۔

سائنسدانوں نے 127 تھیروپوڈ اقسام کا تجزیہ کیا، اور پایا کہ 95 فیصد کی چونچیں یا تھوتھنیاں ’پاور کیسکیڈ‘ اصول پر مبنی ہوتی ہیں۔ کمپیوٹر ماڈلنگ کے ذریعے یہ بھی ظاہر کیا گیا کہ قدیم تھیروپوڈز کے دانتوں والے تھوتھن بھی اسی اصول کے مطابق تیار ہوتے تھے۔

آسمان میں نیند پوری کرنے والا ابابیل پرندہ خطرناک ہے؟

یہ امکان پیدا ہوتا ہے کہ یہ اصول نہ صرف پرندوں اور ڈائنوسارز، بلکہ تمام ریڑھ کی ہڈی والے جانداروں، جیسے ممالیہ، مچھلیاں اور رینگنے والے جانور، کی تھوتھنیوں پر بھی لاگو ہو سکتا ہے۔

اگرچہ زیادہ تر پرندوں کی چونچیں اس اصول کی پابند ہیں، چند نایاب اقسام اس سے انحراف بھی کرتی ہیں۔ یوریشین اسپون بل (Eurasian Spoonbill) ایک ایسی مثال ہے، جس کی چپٹی، چمچ نما چونچ اسے دلدلی علاقوں میں کیڑے مکوڑے پکڑنے میں مدد دیتی ہے۔

یہ ’اصول شکن‘ مثالیں درحقیقت اس اصول کی افادیت کو مزید نمایاں کرتی ہیں۔ جب کوئی پرندہ اپنی خوراک کے مخصوص انداز کی وجہ سے اس اصول سے ہٹتا ہے، تو یہ بتاتا ہے کہ اصول کی پابندی ارتقائی کامیابی کی ایک عمومی راہ ہے، مگر فطرت میں تنوع ہمیشہ موجود ہے۔

مرغوں کا اترانا بے سبب نہیں، اپنے عکس کو پہچانتے ہیں، سائنسی تحقیق

اب سائنسدان یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آیا ’پاور کیسکیڈ‘ کا اصول چوزے سے بالغ پرندے تک چونچ کی نشوونما میں بھی کارفرما ہوتا ہے۔ اگر ایسا ہے تو ممکن ہے کہ ہمیں یہ اصول دیگر جانداروں کی جسمانی ساخت میں بھی نظر آئے۔

یہ تحقیق ہمیں بتاتی ہے کہ فطرت، جتنی پیچیدہ اور متنوع نظر آتی ہے، اس کے پیچھے بعض اوقات نہایت سادہ اور خوبصورت ریاضیاتی اصول کام کرتے ہیں۔ ’پاور کیسکیڈ‘ نہ صرف پرندوں کی چونچوں کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے، بلکہ فطری ارتقا کی زبان کو بھی ایک نیا مفہوم عطا کرتا ہے۔

Similar Posts