ٹرمپ انتظامیہ نے ہارورڈ یونیورسٹی کی اربوں ڈالر کی امداد روک دی۔۔ غیرملکی خبررساں ایجنسی کے مطابق امریکی محکمہ تعلیم نے ہارورڈ یونیورسٹی کو اقدام سے باضابطہ آگاہ کردیا۔ تحقیق اور دیگر امور سے متعلق اربوں ڈالر کی امداد منجمد کی گئی۔ ٹرمپ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ مطالبات پر عمل نہ ہوا تو امداد معطل رہے گی۔ اس سے قبل ٹرمپ انتظامیہ کے مطالبات ماننے سے انکار پر ہارورڈ یونیورسٹی کی وفاقی امداد منجمد کردی گئی تھی۔
ٹرمپ انتظامیہ نے ہارورڈ یونیورسٹی کی وفاقی مالی امداد اس وقت تک معطل کر دی ہے جب تک کہ یونیورسٹی امریکی حکومت کے تمام مطالبات تسلیم نہیں کرتی۔ امریکی محکمہ تعلیم کی جانب سے جاری کیے گئے ایک سخت لہجے والے خط میں واضح کیا گیا ہے کہ ہارورڈ کو اب کسی قسم کی تحقیقاتی گرانٹس یا دیگر وفاقی امداد فراہم نہیں کی جائے گی۔
یہ خط وزیر تعلیم لنڈا مک میہن نے یونیورسٹی کے صدر ڈاکٹر ایلن گاربر کو ارسال کیا، جسے سوشل میڈیا پر بھی شیئر کیا گیا۔ خط میں کہا گیا، ”یہ خط آپ کو آگاہ کرنے کے لیے ہے کہ ہارورڈ اب وفاقی حکومت سے کوئی گرانٹ حاصل نہ کرے، کیونکہ ایسی کوئی امداد فراہم نہیں کی جائے گی۔“
یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا جب ہارورڈ نے ٹرمپ انتظامیہ کی (یہودی دشمنی کے خلاف) ٹاسک فورس کے متعدد مطالبات کو ماننے سے انکار کر دیا۔ ان مطالبات کی بنیاد ہارورڈ کیمپس میں اسرائیل کے غزہ پر حملوں کے خلاف ہونے والے احتجاجات بنے، جنہیں انتظامیہ نے یہودی مخالف قرار دیا۔
لنڈا مک میہن نے یونیورسٹی پر ”وفاقی قوانین کی منظم خلاف ورزی“ کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ادارہ ایسے غیر ملکی طلبہ کو مدعو کرتا ہے جو ”تشدد کو ہوا دیتے ہیں اور امریکہ سے نفرت کا اظہار کرتے ہیں“۔ مک میہن نے الزام لگایا کہ ہارورڈ نے امریکی اعلیٰ تعلیمی نظام کو ”مذاق“ بنا دیا ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ پہلے ہی ہارورڈ کی 2.2 ارب ڈالر کی امداد منجمد کر چکی ہے، جبکہ مزید 1 ارب ڈالر کی امداد روکنے کی دھمکی دی جا چکی ہے۔ ساتھ ہی یونیورسٹی کے خلاف متعدد تحقیقات کا آغاز کیا گیا ہے، بین الاقوامی طلبہ کی تعلیمی صورتحال کو خطرے میں ڈالا گیا ہے اور اس کی غیر منافع بخش (ٹیکس فری) حیثیت ختم کرنے پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔
ان تمام اقدامات کے خلاف ہارورڈ یونیورسٹی نے وفاقی حکومت پر مقدمہ دائر کر دیا ہے۔ یونیورسٹی کا کہنا ہے کہ امداد کی بندش سے طبی اور سائنسی تحقیق، طلبہ کی تعلیم، اساتذہ، عملہ اور مریضوں پر سنگین اثرات مرتب ہوں گے۔
وزیر تعلیم کے خط میں ہارورڈ کی گورننگ بورڈ کی رکن اور سابق امریکی وزیر تجارت پینی پرٹزکر کی بائیں بازو سے وابستگی، ٹرمپ کے حامی اور سابق طالبعلم بل ایکمین کی شکایات، اور تنوع پر مبنی داخلہ پالیسی کو ”بدصورت نسل پرستی“ قرار دینے جیسے متعدد دیگر نکات بھی شامل تھے۔
مزید برآں، مک میہن نے ہارورڈ کے حالیہ فیصلوں کو ہدف بناتے ہوئے لکھا کہ یونیورسٹی نے نیویارک اور شکاگو کے سابق میئرز — بل ڈی بلاسیو اور لوری لائٹ فٹ — کو جو تحقیقی فیلوشپس دی ہیں، وہ ”ملک کی تاریخ کے بدترین میئرز“ کو ذمہ داریاں سونپنے کے مترادف ہے۔ ان پر طنز کرتے ہوئے مک میہن نے لکھا، ”یہ ایسے ہے جیسے ٹائیٹینک کے کپتان کو نیوی گیشن سکھانے کے لیے رکھا جائے۔“
خط کے آخر میں مک میہن نے کہا: ”ہارورڈ اب ایک نجی ادارے کے طور پر کام کرے، اور اپنی 53 ارب ڈالر کی اینڈاؤمنٹ اور مالدار سابق طلبہ سے فنڈز حاصل کرے۔“