بی بی سی کے جنوبی ایشیا کے ریجنل ایڈیٹر امبراسن ایتھیراجن کے مطابق چار روزہ کشیدگی کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک بڑا تصادم وقتی طور پر ٹل گیا ہے اور اس میں امریکہ نے ایک بار پھر دونوں حریف ممالک کے درمیان ثالثی کا اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان کے تجزیے کے مطابق اس حالیہ تنازعے میں بھارت فیصلہ کن کارروائی میں ناکام رہا، جبکہ پاکستانی افواج نے کامیابی کے ساتھ بھارتی جارحیت کا مقابلہ کرتے ہوئے خود کو ایک فاتح قوت کے طور پر منوایا ہے، اور پاکستانی عوام بھی اپنی فوج کے ساتھ مکمل طور پر متحد نظر آئی۔
سیز فائر کے بعد پاکستان اور انڈیا اپنی بیرکس میں واپس جا کر اس تنازع میں ہونے والے اپنے اپنے فائدے اور نقصانات کا حساب کتاب کر رہے ہوں گے، جبکہ صدر ٹرمپ ایک مرتبہ پھر دنیا کے سامنے ممکنہ طور پر خود کو ایک عالمی امن ساز (پیس میکر) کے طور پر پیش کریں گے۔ اور اس پیش رفت کی بنیاد پر ٹرمپ کے وزیر خارجہ مارکو روبیو اپنی پہلی بڑی سفارتی کامیابی کا دعویٰ کر سکتے ہیں۔
پاکستانی فوج اپنے ملک کی عوام کو بتا سکتی ہے کہ وہ کس طرح انڈیا کی جارحیت کو ناکام بنانے میں کامیاب ہوئے۔ ایک طرح سے پاکستانی افواج اس تنازعے میں ایک اور فاتح کے طور پر ابھری ہیں کیونکہ بظاہر پورا ملک اور اس کی عوام اُن کے پیچھے کھڑے ہیں۔
یاد رہے کہ صرف دو سال قبل ابق وزیراعظم عمران خان کے حامیوں کی جانب سے پاکستانی فوج کے خلاف مظاہرے کیے گئے تھے۔
تو انڈیا کے لیے اس میں کیا سبق ہے؟
انڈیا ایک بار پھر یہ دلیل دے سکتا ہے کہ اس نے پاکستان کے ایٹمی ڈیٹرنس کے باوجود پاکستان کے اندر دہشت گردی کے بنیادی ڈھانچے پر حملہ کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔
مجموعی طور پر دہلی کو یہ احساس بھی ہو سکتا ہے کہ ان کے پرانے حریف کی فضائی طاقت اس کی سوچ سے کچھ زیادہ ہے، اور انڈیا نئے ہتھیاروں کے حصول پر اربوں خرچ کرنے کے باوجود فیصلہ کُن ضرب لگانے میں ناکام رہا ہے۔