گزشتہ ماہ جب درجنوں اسرائیلی اور امریکی جنگی طیاروں نے ایرانی فضائی حدود میں داخل ہو کر شدید بمباری کی، تو ایران کی فضائیہ مکمل طور پر غیر فعال نظر آئی۔ ایرانی ایئر فورس نے نہ تو حملہ آور طیاروں کو روکنے کی کوشش کی، نہ ہی اپنے لڑاکا طیارے فضا میں بھیجے۔ اس ناکامی کے بعد ایران نے اب چین سے جدید ”چینگڈو جے-10 سی“ لڑاکا طیارے خریدنے کے لیے مذاکرات تیز کر دیے ہیں۔ یہ دعویٰ ایرانی اور یوکرینی میڈیا کی رپورٹس میں کیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ایرانی ایئر فورس کے پاس اس وقت تقریباً 150 لڑاکا طیارے موجود ہیں، جن میں اکثریت 1979ء کی اسلامی انقلاب سے قبل خریدے گئے امریکی ایف-4 فینٹم، ایف-5 ٹائیگر اور ایف-14 ٹام کیٹ جیسے پرانے طیاروں پر مشتمل ہے۔ چند سوویت نژاد مِگ-29 بھی ایرانی فضائی بیڑے کا حصہ ہیں، مگر ان کی بڑی تعداد یا تو ناکارہ ہو چکی ہے یا ناکافی دیکھ بھال کے باعث قابل استعمال نہیں۔
ایرانی میڈیا اور یوکرینی خبر رساں اداروں کے مطابق، تہران نے روس سے جدید سخوئی ایس یو-35 طیاروں کی خریداری کے معاہدے کی ناکامی کے بعد چین کے ساتھ جے-10 سی طیاروں کے لیے مذاکرات کا آغاز کیا ہے۔ روس کے ساتھ معاہدے کے تحت ایران کو 50 ایس یو-35 طیارے فراہم کیے جانے تھے، لیکن اب تک صرف چار تربیتی طیارے ہی فراہم کیے گئے، جبکہ باقی معاہدہ تعطل کا شکار رہا۔
جے-10 سی طیارے، جنہیں چین ”ویگرس ڈریگن“ کے نام سے جانتا ہے، 4.5 جنریشن کے جدید ملٹی رول طیارے ہیں جو جدید ”اے ای ایس اے“ ریڈار اور پی ایل-15 میزائلوں سے لیس ہوتے ہیں۔ یہ طیارے لمبی دوری تک دشمن کے اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور فضائی جنگ میں اسرائیل کے بعض جدید طیاروں کا مقابلہ کرنے کی حد تک مؤثر سمجھے جا رہے ہیں۔ یہی طیارے پاکستان کی فضائیہ نے بھی بھارت کے خلاف مئی 2025 کی جھڑپ میں کامیابی سے استعمال کیے تھے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ایران نے 2015 میں بھی جے-10 طیارے خریدنے کی کوشش کی تھی، اور اُس وقت 150 طیاروں پر مشتمل ممکنہ معاہدہ زیر غور تھا، مگر چین کی جانب سے غیر ملکی کرنسی میں ادائیگی کے مطالبے اور اقوام متحدہ کی اسلحہ پابندی کے باعث معاہدہ نہ ہو سکا۔ ایران صرف تیل اور گیس کے ذریعے ادائیگی کی پیشکش کر رہا تھا۔
چینی جے-10 سی طیارے، جو پاکستانی فضائیہ کا بھی حصہ ہیں، پی ایل-15 میزائل سے لیس ہوتے ہیں جنہیں مغربی میزائلوں پر سبقت حاصل ہے۔ ان طیاروں کی ساخت اور رفتار انہیں ڈاگ فائٹس میں بھی خاصی برتری دیتی ہے۔ ڈبلیو ایس-10 چینی انجن اور ڈیلٹا وِنگ کینارڈ ڈیزائن کی بدولت ان کی پرواز اور چابکدستی نمایاں مانی جاتی ہے۔
اگر یہ سودا مکمل ہو جاتا ہے تو یہ نہ صرف ایران کی فضائی طاقت میں بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ہوگا بلکہ چین اور ایران کے دفاعی تعلقات میں بھی نئی جہتوں کا آغاز ہوگا، خاص طور پر ایسے وقت میں جب روس ایران کو اس کے اہم ہتھیار فراہم کرنے سے گریزاں دکھائی دے رہا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ایران کی یہ کوشش ایک ایسی فضائی ناکامی کے بعد کی جا رہی ہے جس نے نہ صرف اس کی فوجی کمزوریوں کو بے نقاب کیا بلکہ خطے میں طاقت کے توازن پر بھی سوالات اٹھا دیے ہیں۔ اس تناظر میں ایران کا چینی دفاعی صنعت کی طرف رجوع ایک عملی اور اسٹریٹجک قدم تصور کیا جا رہا ہے۔