آگ پر ماتم، شبیہ روضہ اور ذوالجناح — یومِ عاشور کی منفرد روایات

0 minutes, 0 seconds Read

یومِ عاشور کا دن جب آتا ہے تو پاکستان بھر میں ہر شہر، ہر بستی اور ہر کوچہ کربلا کا منظر پیش کرتا ہے۔ اس دن نہ صرف سوگ منایا جاتا ہے بلکہ ہر علاقے کی اپنی مخصوص اور دل کو چھو لینے والی روایات ہوتی ہیں۔ کہیں ماتمی جلوسوں میں سینہ کوبی ہوتی ہے، کہیں زنجیر زنی، اور کہیں وہ رسمیں بھی ادا کی جاتی ہیں جن میں جسم و جاں کی انتہا پر غمِ کربلا کا اظہار ہوتا ہے۔ آئیے تین اہم مقامات کی ایسی ہی منفرد اور روح پرور روایات کا مشاہدہ کرتے ہیں۔

آگ پر ماتم — یادِ خیمہ سوزی کا دل دہلا دینے والا منظر

قصور کی تحصیل چونیاں میں پچھلی نصف صدی سے ایک دل دہلا دینے والا ماتم کیا جاتا ہے — ”آگ پر ماتم“۔ یہ کوئی استعارہ نہیں، حقیقت ہے۔ یہاں عزادار جلتے ہوئے انگاروں پر ننگے پاؤں چلتے ہیں، یہ منظر دیکھ کر دل کانپ اٹھتا ہے لیکن ان کے چہروں پر خوف نہیں، صرف عشقِ حسین کی جھلک ہوتی ہے۔

چونیاں مرکزی امام بارگاہ میں سید امان علی شاہ کی قیادت میں یہ رسم ادا کی جاتی ہے، جو اس یاد کو تازہ کرتی ہے جب 61 ہجری میں یزیدی فوج نے خیمہ اہلِ بیت کو آگ لگا دی تھی، بی بی زینب جلتے خیمے سے امام زین العابدین کو نکال رہی تھیں۔ اس ہولناک منظر کی یاد میں عزادار پہلے وضو کرتے ہیں، نوافل ادا کرتے ہیں اور پھر بغیر کسی جھجک کے آگ پر ماتم کرتے ہیں۔

ملک بھر میں یومِ عاشور آج عقیدت و احترام سے منایا جا رہا ہے، سیکیورٹی ہائی الرٹ، موبائل سروس جزوی معطل

یہ صرف جسمانی اذیت نہیں، بلکہ ایک روحانی احتجاج ہے — یزید کے ظلم کے خلاف، مظلومیت حسین کے حق میں۔ جلتی آگ پر قدم رکھنا جیسے یہ اعلان ہے کہ کربلا کی صدا آج بھی زندہ ہے۔

شبیہ روضہ امام حسین — کربلا کا عکس پاکستان میں

ملتان کی تحصیل جلالپور پیروالہ میں قائم پاکستان کا واحد شبیہ روضہ حضرت امام حسین عاشور کے دن زائرین سے کھچا کھچ بھر جاتا ہے۔ اس عظیم امام بارگاہ کا پورا ڈیزائن عراق کے اصل روضہ امام حسین سے لیا گیا ہے۔ کاریگروں نے دو سال تک شب و روز محنت کرکے اسے مکمل کیا۔

اس کے اندر نصب ضریح، شیشے کا کام، منقش کتبے اور فنِ تعمیر کی باریکی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ یہاں آنے والے زائرین خود کو کربلا میں محسوس کرتے ہیں۔ جو کربلا نہیں جا سکتے، وہ یہاں حاضری دے کر اپنی روحانی پیاس بجھاتے ہیں۔ محرم کے ایام میں یہاں مجالس، ماتم اور زیارات کا سلسلہ جاری رہتا ہے، اور زائرین کا رش دیدنی ہوتا ہے۔

یہ صرف عمارت نہیں، بلکہ ایک جذباتی تعلق ہے — کربلا سے، حسین سے، اور اس قربانی سے جس نے انسانیت کو ہمیشہ کے لیے جھنجھوڑ دیا۔

ذوالجناح — حضرت امام حسین سے وفاداری اور عقیدت کا نشان

محرم الحرام کے جلوسوں میں سب سے منفرد مقام رکھتا ہے ”ذوالجناح“ — وہ سفید گھوڑا جو حضرت امام حسین کی سواری تھا، اور ان کی شہادت کے بعد خالی زین کے ساتھ خیموں کی طرف لوٹا تھا۔ اس گھوڑے کو سال بھر پالا جاتا ہے، اس کی خوراک، علاج اور آرام کا مکمل خیال رکھا جاتا ہے۔

ذوالجناح کو طلائی زیورات، چاندی کی زین، اور زرہ سے سجایا جاتا ہے۔ عزادار اس گھوڑے کو ہاتھ لگا کر، اس کے قریب آ کر، اور آنکھوں میں آنسو بھر کر شہداء کربلا سے عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔ اس گھوڑے پر کبھی کسی کو سوار نہیں ہونے دیا جاتا، کیونکہ یہ امام حسین کی یادگار ہے، ان کی خاموش چیخ کا پیغامبردار۔

صدر مملکت اور وزیراعظم کا یومِ عاشور پر پیغام، حضرت امام حسین کی قربانی مشعلِ راہ قرار

یہ ذوالجناح نہ صرف ایک جلوس کا حصہ ہے بلکہ ہر آنکھ کو یہ احساس دلاتا ہے کہ امام حسین کے بعد یہ گھوڑا تنہا نہیں، ہر عزادار اس کا وارث ہے۔

یوم عاشور کی یہ تین جھلکیاں صرف رسوم نہیں، بلکہ کربلا کی زندہ تعبیر ہیں۔ کبھی جلتی آگ سے ہو کر، کبھی طرزِ کربلا کی عمارتوں میں، اور کبھی امام کی سواری کے سامنے آنکھوں میں نمی لے کر، ہم سب اس پیغام کو دہراتے ہیں: ”کُل ایام عاشور، کُل ارض کربلا“ — ہر دن عاشور ہے، ہر جگہ کربلا ہے۔

Similar Posts