اٹھ گیا سائبان، درجنوں خاندان پریشان — لیاری کے متاثرین بے آسرا، فلاحی تنظیمیں غائب

0 minutes, 0 seconds Read

لیاری میں مخدوش عمارت گرنے کے بعد درجنوں خاندان بے گھر ہو گئے، کئی سڑکوں پر ڈیرے ڈالے بیٹھے ہیں۔ نہ فلاحی تنظیمیں مدد کو پہنچیں، نہ حکومتی وعدوں پر کوئی عمل نظر آیا۔ متاثرین کھلے آسمان تلے موسم کی سختیاں اور بے بسی کی مار سہنے پر مجبور ہیں۔ ستم ظریفی یہ کہ کسی فلاحی تنظیم یا حکومتی ادارے نے ان کی فوری مدد کو ہاتھ نہیں بڑھایا۔ بچوں، خواتین اور بزرگوں سمیت کئی خاندانوں کو موسم کی سختیوں کا سامنا ہے۔ صوبائی مشیر برائے اقلیتی امور یا دیگر نمائندے اب تک صرف بیانات کی حد تک دکھائی دیے ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ درجنوں خاندان اب بھی ایک چھت کے انتظار میں کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

کراچی کے علاقے لیاری میں مخدوش عمارت گرنے کے بعد درجنوں خاندان بے گھر ہو گئے ہیں۔ چھت کا سایہ چھن گیا، روزگار کا سہارا چھوٹ گیا، اور جو بچا کھچا سامان تھا، وہ سڑک پر لا کر رکھ دیا گیا۔ متاثرہ خاندان کھلے آسمان تلے، بچوں سمیت گلیوں میں بیٹھے ہیں، نہ حکومتی مدد نظر آئی نہ فلاحی تنظیمیں دکھائی دیں، جو دعویٰ کرتی ہیں کہ ہر مصیبت میں پیش پیش ہوتی ہیں۔

لیاری کے بغدادی علاقے میں گرنے والی پانچ منزلہ عمارت نہ صرف قیمتی جانیں لے گئی بلکہ ایک نئی مصیبت کا آغاز بھی کر گئی۔ حادثے کے بعد اطراف کی عمارتوں کو بھی مخدوش قرار دے کر فوری خالی کرانے کا فیصلہ کیا گیا۔ مکینوں کو صرف چند گھنٹے دیے گئے کہ سامان نکال لیں، مگر سوال یہ ہے کہ وہ یہ سامان لے کر جائیں تو کہاں؟

گھروں سے نکال کر تالے ڈال دیے گئے۔ کسی نے رشتہ داروں کے ہاں پناہ لی، تو کوئی سڑک کنارے ہی اپنا بستر بچھا بیٹھا۔ بزرگ خواتین آنکھوں میں آنسو لیے مدد کے طلبگار ہیں، بچے تپتی گرمی میں زمین پر لیٹے ہیں اور مرد حضرات سر پکڑے سوچ رہے ہیں کہ کل کہاں جائیں گے۔ متاثرین کا کہنا ہے کہ نہ کھانے کو کچھ ہے، نہ پینے کو۔ کوئی یہ پوچھنے بھی نہیں آیا کہ آپ کو کسی چیز کی ضرورت تو نہیں؟

لیاری میں عمارت گرنے سے پہلے کیا ہوا؟ سی سی ٹی وی فوٹیج آج نیوز کو موصول

عمارت گرنے کے بعد جہاں حکام حرکت میں آئے، وہیں فلاحی تنظیموں کی غیر حاضری نے عوام کو مایوس کیا۔ متاثرین کا کہنا ہے کہ کسی نے پانی کا بھی نہ پوچھا، کوئی این جی او کھانا لے کر نہیں آئی، جبکہ میڈیا پر سب کچھ دکھایا جا رہا ہے، لیکن زمینی حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔

ایک متاثرہ خاتون نے بتایا، ”ہمیں ایک گھنٹے کا وقت دے کر نکالا گیا، چار دن ہوگئے، آج تک گھر واپس جانے نہیں دیا گیا۔ ہم کہاں جائیں؟ بچوں کے ساتھ سڑک پر ہیں، کسی نے پوچھا بھی نہیں۔“

سانحہ لیاری کے بعد سوالات اٹھ گئے؛ نوٹس جاری تھے مگر عمارت خالی نہ ہوئی

رکشہ ڈرائیور، جن کی 40 گاڑیاں گرنے والی عمارت کے نیچے پارک تھیں، روزگار سے بھی محروم ہو گئے۔ وہ فریاد کرتے نظر آئے۔ رکشا مالکان کا کہنا ہے کہ، ”چھت گئی، روزگار بھی گیا، حکومت ہمیں متبادل دے، کم از کم بچوں کا پیٹ تو بھر سکیں۔“

ادھر حکام کے مطابق لیاری میں 51 عمارتیں مخدوش قرار دی گئی ہیں، جن میں سے 11 کو خالی کرایا جا چکا ہے۔ احتجاج کے بعد مخدوش عمارتیں گرانے کا عمل فی الحال روک دیا گیا ہے اور مکینوں کو سامان نکالنے کے لیے کچھ مہلت دی گئی ہے۔

لیکن متاثرین سوال کر رہے ہیں کہ سامان نکالنے کے بعد کیا وہ سڑک پر ہی بیٹھے رہیں گے؟ آخر ان کے لیے کوئی عارضی پناہ گاہ کیوں نہیں؟ صوبائی مشیر برائے اقلیتی امور کا اب تک کوئی پتہ نہیں۔ نہ ان کا بیان، نہ دورہ، نہ امداد۔

یہ المیہ صرف ایک عمارت کے گرنے کا نہیں، یہ کہانی ہے حکومتی بے حسی، فلاحی تنظیموں کی غیر موجودگی اور ان لوگوں کی، جن کی زندگی چند لمحوں میں بکھر گئی۔ ان کا مطالبہ صرف اتنا ہے کہ ”ایک چھت دے دو، ہم خود پھر سے سب کچھ بنا لیں گے۔“

Similar Posts