بے اختیار سے بااختیار تک، پاکستانی صدور کی دلچسپ تاریخ

0 minutes, 4 seconds Read

جب 1935 کا ’انڈیا ایکٹ‘ پاکستان کے سیاسی نظام کی ریڑھ کی ہڈی بنا، تو کسی نے خواب میں بھی نہ سوچا ہوگا کہ اس قانونی ڈھانچے سے نکل کر ایک دن ایوانِ صدر ایسا تھریڈروم بن جائے گا جہاں ”اقتدار“ کبھی وردی میں، کبھی شیروانی میں، اور کبھی ”خاموشی کے ساتھ“ داخل ہوتا رہے گا۔ قائداعظم محمد علی جناح نے گورنر جنرل کے عہدے سے جس سفر کا آغاز کیا، وہ صدر کے عہدے تک پہنچتے پہنچتے ایک ڈرامائی سیریل میں تبدیل ہو گیا، جس کے ہر سیزن میں نیا صدر، نیا موڑ، اور پرانے خوابوں کی نئی پامالی سامنے آتی رہی۔ پھر جو کچھ ہوا وہ نہ جمہوریت تھی نہ بادشاہت، بلکہ ”میوزیکل چیئرز کا آئینی ایڈیشن“ تھا، جس میں ہر فوجی یا سیاستدان کرسی کے قریب گھومتا اور موقع ملتے ہی چھلانگ مار کر بیٹھ جاتا۔

1956 میں آئین آیا تو گورنر جنرل کا عہدہ ختم ہوا اور صدر مملکت کا عہدہ وجود میں آیا، مگر اقتدار کی بھوک ختم نہ ہوئی، بلکہ آئینی عہدوں کو ”سیاسی تھانیداری“ کے طور پر استعمال کیا گیا۔ ایوانِ صدر میں موجود صدارتی سنگھاسن وہ کرسی ہے جس پر بیٹھ کر کبھی اسکندر مرزا نے مارشل لا لگایا، تو کبھی فضل الٰہی چوہدری نے اخبار پڑھتے ہوئے چپ چاپ دستخط کیے۔ کبھی ایوب خان نے فاطمہ جناح کے مقابل الیکشن جیت کر اپنی دھاندلی کی مہارت دکھائی، تو کبھی ضیاالحق نے ریفرنڈم کروا کر 95 فیصد عوامی حمایت کا مزہ چکھا۔

اب تک پاکستان میں 14 افراد صدارت کے منصب پر فائز ہو چکے ہیں، جن میں 5 فوجی اور 9 سویلین شامل ہیں۔ ان میں سے محض چند صدور ہی ایسے تھے جنہوں نے آئینی مدت مکمل کی، باقی یا تو مستعفی ہوئے، یا برطرف کیے گئے، یا پھر سیاسی و فوجی دباؤ کے تحت اقتدار چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔

1956 : پہلا آئین، پہلا صدر، اور پہلا شو اسٹاپر

پاکستان کے ابتدائی صدور میں میجر جنرل اسکندر مرزا شامل ہیں جنہوں نے 1956 میں بطور پہلے صدر حلف اٹھایا، لیکن صرف دو سال بعد ہی آئین معطل کر کے ملک میں پہلا مارشل لا نافذ کر دیا۔
جب انڈیا ایکٹ 1935 کی بیساکھیوں پر پاکستان کھڑا ہوا، تو گورنر جنرل ہی اصل بادشاہ تھے۔ لیکن 1956 میں اسکندر مرزا نے سوچا، کیوں نہ خود کو اپگریڈ کیا جائے۔ بس پھر کیا تھا، گورنر جنرل سے سیدھے صدر بن بیٹھے۔ لیکن دو سال بعد انہوں نے خود ہی آئین کو کچرا دان میں پھینکا اور جنرل ایوب خان کو مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنا ڈالا۔

1958-1969: ایوب خان کا جادو، فاطمہ جناح کا انتخاب اور ریفرنڈم کا ”ریپنگ پیپر“

پھر آئے جنرل ایوب خان، جو بطور فیلڈ مارشل ملک کے پہلے فوجی صدر بنے اور اپنے طویل دورِ حکومت میں ایک نیا آئین لائے، لیکن اقتدار پر گرفت رکھنے کے باوجود 1969 میں عوامی دباؤ کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔

ایوب خان نے نہ صرف اپنے عہدے کو ریفرنڈم کی چادر اوڑھائی بلکہ محترمہ فاطمہ جناح کو بھی شکست دے دی۔ یہ الگ بات ہے کہ جمہوریت اس انتخاب کے بعد کئی سالوں تک ”ناراض“ ہو گئی۔

1969-1971: جنرل یحییٰ خان اور سقوطِ ڈھاکہ

یحییٰ خان کے کریڈٹ پر 1971 کے سب سے شفاف انتخابات کا ٹائٹل ضرور ہے، لیکن اس کے ساتھ ملک دولخت کرنے کا کارنامہ بھی۔ ان کا دور اس بات کی یاد دہانی ہے کہ الیکشن کرانا کافی نہیں، نتائج بھی ماننے پڑتے ہیں۔

1971-1973: ذوالفقار علی بھٹو کا مختصر صدارتی عہد، مگر آئینی کارنامے طویل

پھر آئے ذوالفقار علی بھٹو، جو ملک کے پہلے سویلین صدر اور بعد میں وزیراعظم بنے۔ انہوں نے 1973 کا آئین دیا جو آج بھی پاکستان کا فعال آئینی ڈھانچہ ہے۔ ان کے دور میں پارلیمانی نظام متعارف ہوا اور صدارت کا منصب اختیارات سے محروم کر دیا گیا۔

ذوالفقار علی بھٹونے ملک کو آئین دیا، اسلامی جمہوریہ پاکستان کو نظریاتی خاکہ دیا، اور صدر سے وزیر اعظم بننے کی باوقار راہ اختیار کی۔ وہ واحد صدر تھے جو عزت سے اپنی مرضی سے ہٹے تاکہ اختیارات جمہوریت کے حوالے کیے جا سکیں۔

1973-1978: فضل الہٰی چوہدری، فائلوں پر دستخط کرنے والا صدر

فضل الٰہی چوہدری، جو بھٹو دور کے پہلے صدر تھے، ایک کمزور صدر تھے جنہیں اکثر ربڑ اسٹیمپ کہا جاتا ہے۔ ایسا صدر جس کا کام صرف فیتے کاٹنا اور دستخط کرنا تھا۔ ان کے دور میں اصل اقتدار بھٹو کے پاس رہا، اور بعد میں جنرل ضیا کے قدموں میں چلا گیا۔

1978-1988: جنرل ضیا الحق، مارشل لا کا استعارہ

ان کے بعد جنرل ضیاءالحق نے مارشل لا نافذ کر کے ایک اور فوجی دور کا آغاز کیا۔ ان کے دور میں اسلامی قوانین، ریفرنڈم، اور غیر جماعتی انتخابات کی بنیاد رکھی گئی۔

جنرل ضیا نے حدود آرڈیننس، زکوٰۃ، اور شریعتی اصلاحات کے ذریعے ریاست کا اسلامی رنگ غالب کر دیا۔ ریفرنڈم کے ذریعے عوامی حمایت حاصل کی، اسمبلی تحلیل کرنے کے اختیارات لیے، اور سیاسی میدان میں شطرنج کے بادشاہ بنے۔ آخرکار ایک دھماکے کے ساتھ یہ باب بند ہوا۔

1988-1993: غلام اسحٰق خان، ”میں نہ مانوں“ کی عملی تصویر

ضیاء کے بعد غلام اسحٰق خان صدر بنے، جنہوں نے بےنظیر بھٹو اور نواز شریف دونوں کی حکومتیں آئین کی شق 58 (2) (b) کے تحت برطرف کیں۔

دو حکومتیں، دو وزرائے اعظم، اور دو مرتبہ اسمبلی تحلیل کرنے کے بعد غلام اسحٰق خان کو بھی جانا پڑا۔ ایک ایسا صدر جس کے استعفے سے ہی نظام کی گاڑی واپس پٹری پر آئی۔

1993-1997: فاروق لغاری، اپنی ہی حکومت کے خلاف

ان کے بعد آنے والے فاروق لغاری نے بھی اپنی ہی پارٹی (پیپلز پارٹی) کی حکومت گرا دی اور نواز شریف کے ساتھ محاذ آرائی کے بعد مستعفی ہو گئے۔ اس کے بعد نواز شریف کے ساتھ ٹھنی، اور بالآخر دونوں ہی گئے۔

1998-2001: رفیق تارڑ، خاموش صدر

رفیق تارڑ، جو سپریم کورٹ کے سابق جج اور نواز شریف کے قریبی ساتھی تھے، ایک کمزور صدر ثابت ہوئے۔ عدلیہ سے سیاست میں آئے اور سیاست سے ایوان صدر میں۔ نواز شریف کے معتمد تھے، مگر جب مشرف آئے تو خاموشی سے سائیڈ پر ہو گئے۔

2001-2008: پرویز مشرف، وردی والا صدر

اور ان کے بعد جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھال کر ایک بار پھر صدارتی اختیارات کو فعال کیا۔ ان کے دور میں 17ویں آئینی ترمیم کے ذریعے صدر کا کردار ایک بار پھر طاقتور ہو گیا۔

جنرل مشرف وہ صدر تھے جنہوں نے آئین کی موٹی جلد کو پتلا کر دیا، اور وردی کے ساتھ ایوان صدر میں تشریف لے آئے۔ ریفرنڈم، 17ویں ترمیم، امریکی جنگ میں شمولیت، بینظیر کی واپسی اور پھر قتل، سب کچھ ان کے دور میں ہوا۔

2008-2013: آصف زرداری، مفاہمت کا باب

مشرف کے بعد آنے والے آصف علی زرداری نے نہ صرف 18ویں ترمیم کے ذریعے صدارتی اختیارات وزیر اعظم کو منتقل کیے بلکہ صدارتی نظام کو آئینی روح کے مطابق محدود کیا۔ ”پاکستان کھپے“ سے شروع ہونے والا دور، 18ویں ترمیم اور اختیارات کی واپسی پر ختم ہوا۔ آصف زرداری کرپشن کے الزامات کے باوجود پانچ سال مکمل کرنے والے پہلے صدر بنے۔

2013-2018: ممنون حسین، ”میمز کا بادشاہ“

ممنون حسین وہ صدر تھے جنہیں لوگ بھول جاتے تھے کہ صدر ہیں۔ مگر صدارت کو عزت دی، اور خاموشی سے اپنی مدت مکمل کی۔ یہ بھی تاریخ میں ایک کمال ہے۔

2018-2024: عارف علوی، ”صدر؟ یا پارٹی رہنما؟“

پیشے سے ڈینٹسٹ ڈاکٹر عارف علوی صدر بنے مگر پی ٹی آئی سے دل نہ چھوٹا۔ کئی مواقع پر غیرجانبداری کا دامن چھوڑا اور سیاسی تنازعات میں الجھے رہے۔ ان کا دور تنازعات، توسیعی مدت اور صدارتی دستخطوں کی الجھنوں سے بھرا رہا۔

2024-تاحال: آصف علی زرداری – ری لوڈڈ

اور پھر واپسی ہوئی زرداری صاحب کی، صدر کے طور پر ان کا دوسرا ٹرم۔ سیاسی اتحاد، مفاہمت اور تجربہ ان کا ہتھیار ہے۔ ان کے صدارت چھوڑنے کی خبریں زیر گردش ہیں۔ لیکن دیکھا یہ ہے کہ مفاہمت کا بادشاہ اس بار کس طرح بساط پلٹتا ہے۔

Similar Posts