اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو دنیا کے سب سے بڑے بین الاقوامی اعزاز نوبیل امن انعام کے لیے باضابطہ طور پر نامزد کر دیا ہے۔ نیتن یاہو نے نوبیل کمیٹی کے نام تحریری خط کو سوشل میڈیا پر بھی شیئر کیا، جس میں ٹرمپ کی عالمی امن کے لیے ”ثابت قدمی اور غیر معمولی لگن“ کو سراہا گیا۔
نیتن یاہو کے مطابق، ڈونلڈ ٹرمپ نے ”دنیا بھر میں امن، سلامتی اور استحکام کو فروغ دینے کے لیے جو کردار ادا کیا ہے، وہ نوبیل امن انعام کا مستحق ہے۔“
یاد رہے کہ ٹرمپ کو اس سے پہلے بھی، مشرق وسطیٰ میں جنگ بندی کی کوششوں اور پاکستان میں امن عمل کی حمایت پر نوبیل انعام کے لیے نامزد کیا جا چکا ہے۔
نوبیل امن انعام: کون نامزد ہو سکتا ہے؟
الفریڈ نوبیل کی وصیت کے مطابق یہ انعام اس شخص کو دیا جانا چاہیے جس نے قوموں کے درمیان رفاقت کو آگے بڑھانے، کھڑی فوجوں کے خاتمے یا کمی اور امن کے قیام اور فروغ کے لیے سب سے زیادہ یا بہترین کام کیا ہو۔
ایسے کام کرنے والے تمام زندہ افراد یا فعال ادارے نوبیل انعام حاصل کرنے کے اہل ہیں۔ نوبیل کمیٹی کے مطابق، عملاً دنیا کے کسی بھی خطے سے، کسی بھی طبقے سے تعلق رکھنے والا شخص یا فعال ادارہ اس اعزاز کا اہل ہو سکتا ہے، بشرطیکہ وہ زندہ ہو۔
کیا اس سال ٹرمپ کی نامزدگی پر غور ہو سکتا ہے؟
نوبیل انعام کے لیے نامزدگیاں ہر سال جنوری میں مکمل ہو جاتی ہیں، جبکہ نیتن یاہو کی جانب سے ٹرمپ کی یہ نامزدگی اب کی گئی ہے، لہٰذا یہ آئندہ سال کے لیے قابل غور ہو سکتی ہے۔
فیصلہ کیسے ہوتا ہے؟
نوبیل کمیٹی نارویجن پارلیمنٹ کی مقرر کردہ 5 شخصیات پر مشتمل ہوتی ہے، ہر سال فروری میں پہلی میٹنگ ہوتی ہے جہاں نامزدگیوں کا جائزہ لیا جاتا ہے، ماہرین کی رائے اور اتفاق رائے سے یا ووٹنگ کے ذریعے حتمی فاتح کا انتخاب کیا جاتا ہے، انعام کا باضابطہ اعلان اکتوبر میں ہوتا ہے۔