سانحہ سوات: وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کو انکوائری رپورٹ پیش، کون کون ذمہ دار ٹھہرا؟

0 minutes, 0 seconds Read

خیبرپختونخوا تحقیقاتی ٹیم نے پروونشل انسپکشن ٹیم کی انکوائری رپورٹ میں سوات واقعے میں غفلت کے مرتکب افراد کے خلاف کارروائی کی سفارش کردی، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کو پیش کردہ رپورٹ میں نظام میں موجود خامیوں کی نشاندہی کی گئی اور دور کرنے کی تجاویز بھی دے دی گئیں۔

تفصیلات کے مطابق سانحہ سوات کے حوالے سے پروونشل انسپکشن ٹیم کی انکوائری رپورٹ وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کو پیش کر دی گئی جبکہ 63 صفحات پر مشتمل انکوائری رپورٹ میں ایسے واقعات سے نمٹنے کے لیے نظام میں موجود خامیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ ان خامیوں اور کوتاہیوں کو دور کرنے کے لیے مختلف اقدامات تجویز کیے گئے ہیں تاکہ مستقبل میں ایسی صورتحال سے بچا جا سکے، خاص طور پر سوات سانحے کے تناظر میں سرکاری اہلکاروں اور افسران کی جانب سے فرائض میں غفلت کا ذکر کیا گیا ہے جنہیں نشاندہی کے بعد تادیبی کارروائیوں کا سامنا کرنا ہوگا۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سیلاب اور قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے مختلف محکموں کے درمیان بہتر کوآرڈینیشن کی ضرورت ہے، اسی طرح، ریور سیفٹی اور بلڈنگ ریگولیشن کے لیے نئے پروٹوکولز اور ریگولیٹری فریم ورک تیار کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے انکوائری رپورٹ کی روشنی میں غفلت کے مرتکب افراد کے خلاف تادیبی کارروائیوں کی منظوری دے دی جبکہ متعلقہ محکمے جیسے کہ ضلعی انتظامیہ، محکمہ آبپاشی، بلدیات، اور ریسکیو 1122، 60 دنوں کے اندر ان کارروائیوں کو عمل میں لائیں گے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سوات سانحے کے دوران محکمہ پولیس، ایریگیشن، ریسکیو 1122، ٹورازم پولیس اور دیگر اداروں کے درمیان کوآرڈینیشن کا فقدان تھا جس کی وجہ سے بروقت امداد فراہم کرنے میں مشکلات پیش آئیں۔

ایڈوائزری کے اجرا کے باوجود، سیاحوں کو خطرات سے آگاہ کرنے میں ہوٹل مالکان اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے غفلت کا مظاہرہ کیا گیا اور ریسکیو 1122 کی رسپانس میں تاخیر بھی سامنے آئی۔ اس کے ساتھ ساتھ، دریاؤں کے کنارے سرگرمیوں کے لیے کوئی واضح ریگولیٹری فریم ورک موجود نہ تھا۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ مون سون سیزن میں سیاحت اور آبی گزرگاہوں پر تعمیرات کے حوالے سے موجودہ قوانین کی خلاف ورزی کی گئی۔ اسی طرح، دفعہ 144 کے نفاذ میں بھی مشکلات آئیں۔

سانحے کے بعد صوبائی حکومت اور مقامی انتظامیہ کی جانب سے متعدد اقدامات کیے گئے ہیں جن میں 127 غیر قانونی عمارتوں کو سیل کرنا اور 682 کنال اراضی پر قائم تعمیرات کو مسمار کرنا شامل ہیں۔ علاوہ ازیں، 609 کلومیٹر لمبی رہور بیڈ کی حد بندی کی گئی اور 174 بیرئیرز نصب کیے گئے۔

دریں اثنا وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کی زیر صدارت اجلاس میں ریسکیو 1122 کے لیے جدید آلات کی خریداری اور 36 پری فیب ریسکیو اسٹیشنز کے قیام کی منظوری بھی دی گئی۔ ان اسٹیشنز کی لاگت 66 ملین روپے ہوگی۔ اسی طرح 739 ملین روپے کی لاگت سے ریسکیو کے جدید آلات خریدنے کی منظوری دی گئی ہے، 608 ملین روپے کی لاگت سے 70 کمپیکٹ ریسکیو اسٹیشنز کے قیام کی منظوری دی گئی جبکہ 200 ملین روپے کی لاگت سے ڈیجیٹل مانیٹرنگ سسٹم کے قیام کی منظوری دے دی گئی۔

اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ آگاہی مہم کے لیے محکمہ اطلاعات، ریلیف، اور سیاحت کی جانب سے صوبہ بھر میں آگاہی مہم چلائی جائے گی تاکہ عوام کو قدرتی آفات سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر کے بارے میں آگاہ کیا جا سکے۔

Similar Posts