تحریر: ایک شرمندہ ہمسایہ
ایک بھارتی شہری برف میں قمیص اتار کر ہریانوی گانے پر ناچ رہا ہے، اور یہ منظر کسی ہریانہ کے میلے کا نہیں، بلکہ سوئٹزرلینڈ کی برفیلی وادیوں کا ہے۔ کوئی حیرانی کی بات نہیں کہ یہ ”کارنامہ“ فخر سے یوٹیوب پر ڈالا گیا ، اور بھارت کے دیسی انفلوئنسر راجہ گجر نے اسے ”ثقافتی فتح“ قرار دیا۔
مودی کا ہندوستان آج کل دنیا بھر میں دو چیزوں سے پہچانا جاتا ہے: ایک آر ایس ایس کا زہریلا نظریہ، اور دوسرا یہ ننگ دھڑنگ، شور مچاتے، غیرمہذب دیہاتی سیاح، جنہیں بیرون ملک جا کر ایسا لگتا ہے جیسے سب کچھ ان کی جاگیر ہو۔
دہلی سے دبئی تک: شور، سیلفیاں اور شرمندگی
برج خلیفہ کے اسکائی ڈیک پر گجراتی گانا ”چوگادا“ پر بازو لہراتے بھارتی سیاحوں کی ویڈیو اس حقیقت کو عیاں کرتی ہے کہ ان کے لیے ہر عوامی جگہ ”ڈانس فلور“ ہے، اور ہر مقامی فرد صرف ایک پس منظر کی چیز۔
ایسے ہی دیسی مسافر ویتنام میں مقامی عورتوں کے ساتھ زبردستی سیلفیاں لیتے ہیں، تھائی لینڈ میں خواتین کو چھیڑتے ہیں، اور گووا میں نہ صرف شراب پیتے ہیں بلکہ غیرملکی خواتین کے ساتھ زبردستی ”ہولی“ کھیلتے ہیں۔ اگر یہ ثقافت ہے، تو خدا ہندوتوا سے محفوظ رکھے!
مودی کی لبرلائزیشن یا دیہات کی بین الاقوامی برآمد؟
سنہ 1990 کی دہائی میں بھارت نے ”معاشی لبرلائزیشن“ کے بعد ترقی کی دوڑ میں قدم رکھا، لیکن تعلیم اور اخلاقیات وہیں پیچھے رہ گئیں۔ نتیجہ؟ لاکھوں ”نو دولتیے“ جن کے ہاتھ میں کیمرہ ہے، جیب میں پیسہ، اور دماغ میں خالی پن۔
یہ وہ دیہاتی نہیں جو واقعی دیہاتوں سے آتے ہیں، بلکہ وہ شہری دیہاتی ہیں جو ایس یو ویز میں گھومتے ہیں، گانوں کی آواز اتنی بلند رکھتے ہیں کہ ہمالیہ کی چوٹیاں بھی بہری پڑ جائیں، اور ہر جگہ ”یہ ہماری ثقافت ہے“ کا نعرہ لگا کر دوسروں کے صبر کا امتحان لیتے ہیں۔
ٹوریسٹ نہیں، آفت ہیں
گووا کے باشندے آج کل ہر دوسرے سیاح کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ وجہ؟ بھارتی ”سیاح“ جو گلیوں میں شور مچاتے، دروازوں پر چڑھ کر ریلز بناتے، اور مقامیوں کو ”سیلفی کا پروپ“ سمجھتے ہیں۔ ہماچل پردیش میں گاڑیوں کے نمبر دیکھ کر مقامی لوگ مدد دینے سے انکار کر دیتے ہیں — خاص طور پر اگر نمبر پلیٹ DL، HR یا UP یعنی ہریانہ، دہلی اور اُترپردیش کی ہو۔
کیا یہ حیران کن ہے؟ بالکل نہیں۔ کیونکہ دیہاتی پن صرف جگہ نہیں، رویے کا نام ہے۔
سفر، سیاحت یا سرکس؟
بھارت کے دیہاتی سیاح دنیا کے لیے اب لطیفہ بن چکے ہیں۔ ہر ہفتے نیا ویڈیو، نئی شرمندگی۔ کوئی برف میں ننگا ناچ رہا ہے، کوئی ٹائیگر کے پنجرے میں گھس رہا ہے، کوئی ویتنام میں خاتون کو گھور رہا ہے تو کوئی ایئرپورٹ کے فرش پر بیٹھ کر زمین پر کھانا پھیلا کر کھا رہا ہے۔
گویا دنیا بھر میں بھارتی سیاحت کا مطلب ہو گیا ہے: شور، گندگی، بدتمیزی، اور فخر کے ساتھ بدتہذیبی۔
یہاں تک کہ جب کوئی انٹرنیشنل ولاگر بھارت جاتا ہے تو توبہ توبہ کرتے ہوئے وہاں سے نکلتا ہے۔ اور وہی ولاگر جب واہگہ بارڈر پار کرکے پاکستان میں قدم رکھتا ہے تو مسلمان نہ بھی ہو تو اس کا شکرانے کے نوافل پڑھنے کا دل کرتا ہے۔
جو بھارتی پہلے دنیا میں دہشتگردی پھیلاتے تھے، اب گند بھی پھیلا رہے ہیں۔ اور لگتا ہے کہ وہ وقت دور نہیں جب انگریز دوبارہ اپنے ریستوراں اور ہوٹلز کے باہر لکھنا شروع کردیں گے۔۔۔ ”Dogs and Indians are not allowed“۔
آخری طنز: ہمسایہ ہو کر شرمندہ ہوں
پاکستان کا میڈیا، سوشل میڈیا اور عوام اکثر بھارت کی ہر حرکت پر تنقید کرتا ہے۔ لیکن بھارتی دیہاتی پن کا عالمی سطح پر مذاق بننا کوئی ’پاکستانی سازش‘ نہیں، یہ خود بھارتیوں کی مہربانی ہے۔ دنیا میں کہیں بھی اگر کوئی ”بھارتی“ سیاح ہو، تو مقامی لوگ محتاط ہو جاتے ہیں — کیونکہ ان کے ”مہمان“ ہنگامہ برپا کرنے والے ہوتے ہیں، عبادت گاہوں میں ناچنے والے، اور تہذیب کے دشمن۔
اور جب ایسے دیہاتی سوشلسٹ پلیٹ فارم پر ”ہمارے کلچر پر فخر ہے“ کہہ کر ہریانہ کے گانے پر سوئٹزرلینڈ میں ناچتے ہیں، تو دنیا کو یہ باور ہو جاتا ہے: ”کلچر“ کا مطلب، واقعی کلچر ہوتا ہے — یہ ”کلچرل بم“ نہیں۔
اور ہمیں خوشی ہے کہ ”یہ سب پاکستانی نہیں ہیں!“ اور جناح دو قومی نظریے کو واضح کرکے ہماری جان ان سے چھڑا چکے ہیں۔