چینی کی قیمتوں میں کمی کے حکومتی دعوے محض اعلان ہی ثابت ہوئے، کیونکہ کراچی سے پشاور، کوئٹہ سے ملتان تک چینی کی فی کلو قیمت ڈبل سنچری عبور کر گئی ہے۔ کئی علاقوں میں دکاندار چینی 180 روپے سے 200 روپے فی کلو میں فروخت کر رہے ہیں، جبکہ شوگر ملز سے ترسیل کی بندش کے باعث صورتحال مزید گھمبیر ہو چکی ہے۔
ضلع نوشہروفیروز میں بھی صورتحال قابو سے باہر ہو چکی ہے، جہاں دکاندار کھلے عام چینی 200 روپے کلو تک فروخت کر رہے ہیں۔ پشاور میں نرخ 205 روپے فی کلو کو چھو رہے ہیں جبکہ کوئٹہ میں چینی 190 روپے فی کلو تک جا پہنچی ہے۔ کراچی کی ہول سیل مارکیٹ میں فی کلو چینی 180 روپے کی سطح پر پہنچ گئی، جبکہ کئی علاقوں میں پرچون نرخ 185 سے 200 روپے کے درمیان ہیں۔
حکومت نے عوام کو ریلیف دینے کے لیے شوگر مل مالکان سے مذاکرات کے بعد چینی کی ایکس مل قیمت 165 روپے فی کلو مقرر کی ہے، جبکہ رواں سال مارچ میں یہ قیمت 159 روپے اور گزشتہ سال جون میں 140 روپے مقرر کی گئی تھی۔ تاہم، ایکس مل قیمت مقرر ہونے کے باوجود عملی طور پر عام صارف کو کوئی ریلیف نہیں مل رہا۔
وفاقی وزارت غذائی تحفظ نے اس صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ قیمتوں میں توازن برقرار رکھنے کے لیے 5 لاکھ میٹرک ٹن چینی درآمد کرنے کی اجازت دی جا چکی ہے۔ حکومت کے مطابق گزشتہ سال جون سے اکتوبر 2024 تک ساڑھے سات لاکھ ٹن چینی برآمد کرنے کی اجازت دی گئی تھی، جس کے بعد ملک میں قلت پیدا ہوئی۔
شوگر مل مالکان نے وعدہ کیا تھا کہ برآمدات سے مقامی مارکیٹ پر اثر نہیں پڑے گا، مگر وعدے وفا نہ ہوئے۔ وزیر خزانہ نے صورتحال پر طنزیہ تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’چینی نے چین چرالیا، مگر سرکار کو کوئی سروکار نظر نہیں آتا۔‘
دوسری جانب ذخیرہ اندوز سرگرم ہو چکے ہیں، جنہوں نے ملوں سے ترسیل رکنے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے گودام بھر لیے ہیں۔ ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ اگر بروقت اور سخت ایکشن نہ لیا گیا تو چینی کی قیمت 220 روپے فی کلو تک جا سکتی ہے، اور عام صارف کو مہنگائی کی نئی لہر کا سامنا کرنا پڑے گا۔