اسرائیل نے بدھ کے روز شام کے دارالحکومت دمشق پر شدید فضائی حملے کیے، جنہیں اسرائیل نے عرب اقلیتی گروپ کی حمایت میں جاری مہم کا حصہ قرار دیا۔
اس سے قبل اسرائیلی فوج نے کہا تھا کہ اس نے حملے تیز کر دیے ہیں تاکہ سرکاری فورسز کی جانب سے دروز اقلیت کو نقصان پہنچنے سے بچایا جا سکے۔
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق شام کی وزارت خارجہ نے اسرائیلی حملوں کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے انہیں ’خطرناک اشتعال انگیزی قرار دیا اور اسرائیل پر جان بوجھ کر کشیدگی بڑھانے، افراتفری پھیلانے اور شام میں امن و استحکام کو نقصان پہنچانے کی پالیسی اپنانے کا الزام عائد کیا۔
شامی حکام کے مطابق ان حملوں میں تین افراد ہلاک اور 34 زخمی ہوئے تھے۔
بدھ کے روز شام میں کیا ہوا؟
اسرائیل نے دمشق کے وسط میں کئی فضائی حملے کیے، جن کا ہدف وہ کمپاؤنڈ تھا جہاں شام کی وزارتِ دفاع قائم ہے، جب کہ صدارتی محل کے قریب کے علاقوں کو بھی نشانہ بنایا گیا تھا۔
اسرائیل کا دمشق پر بڑا حملہ، صدارتی محل اور وزارت دفاع کی عمارت پر بمباری
اسرائیلی فوج نے جنوبی شام میں بھی اہداف کو نشانہ بنایا تھا جہاں دروز گروہوں، بدو قبائل، اور شامی سیکیورٹی فورسز کے درمیان چار دن سے جاری جھڑپوں میں شدت آئی۔
شامی رصدگاہ برائے انسانی حقوق کے مطابق، صوبہ سویدا میں ان جھڑپوں کے دوران اب تک 250 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
شام میں متحارب فریقین نے جھڑپیں ختم کرنے پر اتفاق کرلیا، مارکو روبیو کا اعلان
اسرائیل نے شام پر بمباری کیوں کی؟
الجزیرہ کے مطابق اسرائیلی فضائی حملے سویدا (Suwayda) میں شامی حکومت اور مقامی دروز (Druze) جنگجوؤں کے درمیان کئی روز سے جاری پرتشدد جھڑپوں کے بعد کیے گئے۔
جھڑپوں کا آغاز دروز جنگجوؤں اور مقامی بدو قبائل کے درمیان اغوا اور جوابی حملوں سے ہوا۔ جب شامی حکومتی افواج نے مداخلت کر کے حالات پر قابو پانے کی کوشش کی تو وہ خود دروز گروپوں کے ساتھ جھڑپوں میں الجھ گئی اور بعض اطلاعات کے مطابق انہوں نے عام شہریوں کو بھی نشانہ بنایا۔
دروز فرقہ جو کہ شام اور اسرائیل دونوں میں ایک چھوٹی مگر بااثر اقلیت ہے، اسرائیل میں وفادار اتحادی کے طور پر دیکھا جاتا ہے، اور بہت سے دروز اسرائیلی فوج میں خدمات انجام دیتے ہیں۔
اسرائیلی فوج کا جنوبی شام پر حملہ، خاتون نیوز رپورٹر خوفزدہ، ویڈیو وائرل
منگل کو اعلان کردہ جنگ بندی بدھ کے روز تیزی سے ختم ہوئی، اور لڑائی دوبارہ شروع ہوگئی۔
رپورٹ کے مطابق سویدا کے دروز گروپوں میں بھی تقسیم نظر آتی ہے۔ یاسر جربوع (Yasser Jarbou) نامی ایک رہنما نے حکومت کے ساتھ جنگ بندی کا اعلان کیا، جب کہ دوسرے رہنما، حکمت الحِجری نے کسی بھی جنگ بندی کو مسترد کر دیا۔ دروز برادری کے بہت سے افراد اسرائیل کی مداخلت کے خلاف ہیں۔
اسرائیل کیا چاہتا ہے؟
اسرائیل نے گزشتہ برس دسمبر میں صدر بشار الاسد کے اقتدار سے معزول ہونے کے بعد سے ہی جنوبی شام کے علاقوں میں اپنے اثر و رسوخ میں اضافہ کرنے کی کوشش شروع کردی تھی۔
اسرائیل نے شام کے ساتھ کسی بھی سیکیورٹی معاہدے کی کوششوں سے کنارہ کشی اختیار کر رکھی ہے اور رواں سال بارہا شام کو فضائی حملوں کا نشانہ بنایا۔
کئی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اسرائیل ایک طاقتور شام کے بجائے ایک کمزور اور غیر مستحکم شام کو ترجیح دیتا ہے، تاکہ وہ اسرائیل کے لیے ممکنہ خطرہ نہ بن سکے۔