پاکستان اور امریکا کے درمیان طے پانے والے تجارتی معاہدے کو پاکستان کی خارجہ اور اقتصادی پالیسی میں ایک اہم پیش رفت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اس معاہدے کے تحت نہ صرف پاکستانی مصنوعات پر عائد امریکی ٹیرف میں کمی کی یقین دہانی کروائی گئی ہے بلکہ دونوں ممالک نے تیل نکالنے، توانائی، معدنیات، آئی ٹی، کرپٹو اور دیگر جدید شعبوں میں تعاون کو وسعت دینے کا عزم بھی ظاہر کیا ہے۔
یہ معاہدہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب پاکستان کو اپنی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے بیرونی سرمایہ کاری، برآمدات میں اضافے، اور اقتصادی سفارت کاری کی اشد ضرورت ہے۔ لیکن یہ پیش رفت صرف ایک تجارتی کامیابی نہیں، بلکہ اس کے پیچھے پاکستان کے مخصوص سفارتی رویے کی ایک گہری جھلک بھی ہے، جس پر ماہرین سالوں سے نظر رکھے ہوئے ہیں۔
امریکی خارجہ پالیسی اور جنوبی ایشیاء کے امور پر تحقیق کرنے والے ماہر اور یونیورسٹی ایٹ البانی میں سیاسیات کے ایسوسی ایٹ پروفیسر کرسٹوفر کلیری نے امریکا، بھارت اور پاکستان کے باہمی تعلقات کی تاریخ پر ایک اہم نکتہ اٹھایا ہے۔ ان کے مطابق، اگر ان دو ممالک کے واشنگٹن سے تعلقات کی تاریخ کا خلاصہ کیا جائے تو یوں کہا جا سکتا ہے کہ ’بھارت اکثر اصولوں کی بنیاد پر مثبت سمجھوتے کرنے سے انکار کرتا ہے، جبکہ پاکستان نے اکثر سمجھوتہ کرنے کی کوشش کی ہے (یا کم از کم تاثر یہی دیا ہے) تاکہ واشنگٹن سے تعلقات مثبت رہیں۔‘

کلیری نے اپنی اس بات کو معروف امریکی اسکالر اسٹیفن کوہن کی کتاب India: Emerging Power (2001) کے ایک اقتباس کے ذریعے مزید وضاحت دی، جس میں بھارت اور پاکستان کے مغربی دنیا کے ساتھ مذاکراتی انداز کا تقابلی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔

کوہن لکھتے ہیں: ’بھارت کا مغرب کے ساتھ مذاکرات کا انداز پاکستان سے خاصا مختلف ہے۔ بھارت اکثر ”ناں“ کہنے میں مزا لیتا ہے، جبکہ پاکستان ”شاید“ تک پہنچنے میں کمال رکھتا ہے۔ وہ شاید ہی کسی بات سے مکمل اتفاق کرے، مگر واضح انکار بھی نہیں کرتا۔ پاکستانی حکام مغربی دنیا، خصوصاً امریکا سے ہمیشہ نرمی، تہذیب اور قربت کے انداز میں بات کرتے ہیں۔ وہ خود کو مغرب کا دیرینہ دوست پیش کرتے ہیں اور اکثر یہ لائن دہراتے ہیں کہ پاکستان کو اس کے دوستوں نے مایوس کیا، حالانکہ وہ ماضی میں ”سب سے زیادہ اتحادی“ رہا ہے۔‘

کوہن نے مزید لکھا کہ بھارتی وزارت خارجہ کے پاس خارجہ پالیسی پر مکمل کنٹرول ہوتا ہے اور سیاستدانوں کے لیے اس کا بائی پاس کرنا بہت مشکل ہوتا ہے، جب کہ پاکستان میں مذاکرات اکثر اعلیٰ حکام سے براہ راست ہوتے ہیں، حتیٰ کہ وزارتِ خارجہ کو بھی نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ سیکیورٹی معاملات میں تو عسکری قیادت کو ویٹو پاور حاصل ہے۔
کرسٹوفر کلیری تسلیم کرتے ہیں کہ 2001 کے بعد بھارت نے کئی عالمی معاملات پر ’’ہاں‘‘ کہا ہے، مگر تجارتی و معاشی امور آج بھی ان کے لیے سب سے مشکل شعبہ ہیں، اور کئی غیر ملکی حکام و مذاکرات کار اس شعبے میں بھارت کے سخت رویے سے عاجز دکھائی دیتے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ پیش رفت ایک دیرپا شراکت داری کا آغاز ہے، یا محض ایک وقتی توازن پیدا کرنے کی کوشش؟ اور اس کا چین سے پاکستان کے دیرینہ تعلقات پر کیا اثر پڑے گا؟ اور بھارت اور امریکا کے تعلقات جو ”دوستانہ“ قرار دئے جاتے ہیں ان کا کیا بنے گا؟
چین سے تعلقات: ایک آزمائشی مرحلہ؟
پاکستان کا چین کے ساتھ رشتہ ’’آل ویدر اسٹریٹیجک کوآپریٹو پارٹنرشپ‘‘ کہلاتا ہے، جو صرف دفاعی نہیں بلکہ معاشی میدان میں بھی انتہائی مضبوط ہے، بالخصوص چائنا-پاکستان اکنامک کوریڈور (CPEC) اس کی علامت ہے۔ تاہم، امریکا سے حالیہ قربت اور ٹیکنالوجی و توانائی کے نئے معاہدے چین کے لیے ایک محتاط اشارہ بن سکتے ہیں۔
چین ممکنہ طور پر پاکستان کے اس جھکاؤ کو ”بیلنسنگ ایکٹ“ سمجھے گا، جس میں اسلام آباد ایک طرف امریکہ سے تجارتی اور تکنیکی فائدہ لینا چاہتا ہے، تو دوسری طرف بیجنگ کو ناراض کیے بغیر اپنے دیرینہ تعلق کو قائم رکھنا چاہتا ہے۔ تاہم، اگر امریکا اور پاکستان کے تعلقات اگلے چند برسوں میں مزید مستحکم ہوئے، خاص طور پر ٹیکنالوجی یا سیکیورٹی کے شعبوں میں، تو چین ممکنہ طور پر پاکستان کی ”Exclusive Strategic Dependence“ پر نظرِ ثانی کر سکتا ہے۔
پاکستان اور امریکا کے درمیان حالیہ تجارتی معاہدہ اگرچہ ایک مثبت پیش رفت ہے، مگر اس کی کامیابی کا انحصار عملی اقدامات، شفافیت، اور دیرپا پالیسی تسلسل پر ہوگا۔ اگر پاکستان اسے صرف وقتی ریلیف یا سفارتی کارڈ کے طور پر استعمال کرتا ہے، تو یہ رشتہ بھی ماضی کے معاہدوں کی طرح وقت کی دھول میں دب جائے گا۔
چین کے ساتھ تعلقات میں محتاط توازن برقرار رکھنا پاکستان کے لیے نہایت اہم ہے، کیونکہ دونوں قوتوں کے درمیان مقابلے کی شدت مستقبل میں مزید بڑھے گی، اور اسلام آباد کے لیے ”ایک طرف مکمل جھکاؤ“ پالیسی کسی خطرناک سفارتی بندگلی کا سبب بھی بن سکتی ہے۔
پاکستان آج سفارتی شطرنج کی ایک نازک چال پر ہے جہاں ہر قدم پر سوچ، توازن اور دوراندیشی لازم ہے۔
ٹرمپ کا ٹیرف ہتھوڑا: بھارت کے ساتھ امریکا کی سختی کا ممکنہ نتیجہ کیا ہوگا؟
پاکستان کے برعکس، بھارت کے لیے امریکا پیغام سخت اور تلخ ہے۔ ٹرمپ نے اعلان کیا کہ وہ بھارت سمیت کئی ممالک پر اضافی ٹیرف نافذ کرنے جا رہے ہیں۔ اگرچہ بھارت نے گذشتہ دو دہائیوں میں متعدد شعبوں میں امریکا کے ساتھ معاہدے کیے ہیں، مگر تجارتی میدان میں بھارت کا سخت اور خودمختار رویہ واشنگٹن کے لیے ہمیشہ چیلنج رہا ہے۔
جیسا کہ کرسٹوفر کلیری اور اسٹیفن کوہن کے تجزیات سے ظاہر ہوتا ہے، بھارت اکثر مغرب کے ساتھ ’’ناں‘‘ کہنے کو ترجیح دیتا ہے، جبکہ پاکستان ’’ہاں یا شاید‘‘ کی پالیسی سے آگے بڑھتا ہے۔ پاکستان کی یہی سفارتی لچک اسے امریکی پالیسیاں ساز حلقوں میں زیادہ قابلِ قبول بناتی رہی ہے۔
ٹرمپ کے حالیہ بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت کے ساتھ واشنگٹن کی قربت میں ایک عارضی خلیج پیدا ہو سکتی ہے، خاص طور پر اگر تجارتی مسائل نے شدت اختیار کی تو۔ امریکا بھارت کو اب بھی چین کے مقابلے میں ایک اہم اسٹریٹیجک اتحادی سمجھتا ہے، مگر معاشی ناہمواری اور خودمختاری پسند رویہ مستقبل میں اس رشتے میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔
مودی کو ایک اور جھٹکا، ٹیرف اعلان کے بعد بھارت میں قائم 7 کمپنیوں پر بھی پابندی
اب پاکستان کے لیے یہ موقع ہے کہ وہ امریکا کے ساتھ اپنی تجارتی اور توانائی پالیسی کو مزید مربوط بنائے۔ اگر یہ معاہدہ پائیدار اور شفاف بنیادوں پر قائم رہا تو پاکستان نہ صرف سرمایہ کاری اور ٹیکنالوجی حاصل کر سکے گا بلکہ ایک بار پھر واشنگٹن کی خارجہ پالیسی میں اہم مقام حاصل کر سکتا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب بھارت کی پوزیشن متزلزل دکھائی دے رہی ہے۔
طویل گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ ٹرمپ کی ”ڈیل میکنگ“ پالیسی ہمیشہ نتائج پر مرکوز اور شخصی فیصلوں پر مبنی رہی ہے۔ اس تناظر میں پاکستان نے اگر سفارتی مہارت سے اپنی جگہ بنالی ہے تو بھارت کو اب اپنی تجارتی پالیسی میں زیادہ لچک لانا ہو گی، وگرنہ واشنگٹن کی ترجیحات میں تبدیلی اس کے طویل المدتی مفادات پر اثر ڈال سکتی ہے۔ جنوبی ایشیا میں نئی صف بندیاں بنتی دکھائی دے رہی ہیں، اور پاکستان شاید طویل عرصے بعد اس میدان میں ایک متوازن پوزیشن حاصل کرنے کے قریب ہے۔