بچپن اور ناکامی، یہ دو لفظ بظاہر ایک ساتھ جچتے نہیں۔ مانا کہ بچوں کو حفاظت، رہنمائی اور سہارا دیا جانا چاہیے۔ لیکن ایک اہم حقیقت یہ ہے کہ ناکامی، اگرچہ تکلیف دہ ہوتی ہے، مگر ایک بہترین استاد بھی ثابت ہو سکتی ہے۔
ہم جب بچوں کو ہر بار گرنے سے بچاتے ہیں، تو شاید وقتی سکون محسوس ہوتا ہے، لیکن درحقیقت ہم ان سے زندگی کی قیمتی مہارتیں چھین لیتے ہیں جن میں صبر، برداشت اور خود آگاہی شامل ہیں۔
زندگی میں آگے بڑھنا صرف انعام جیتنے یا ہر سوال کا صحیح جواب دینے کا نام نہیں۔ اصل کامیابی تب آتی ہے جب انسان سیکھے کہ گرنے کے بعددوبارہ سنبھلنا کیسے ہے؟ اسی لیے، کبھی کبھار پیچھے ہٹنا اور بچے کو ناکامی کا سامنا کرنے دینا سب سے بڑی محبت کی علامت بن جاتا ہے۔

عام تصور ہے کہ بچہ مسلسل کامیاب ہو کر ہی خود اعتماد بنتا ہے، جیسے تمغے جیتنا یا تعریف پانا۔ مگر اصل خود اعتمادی تب جنم لیتی ہے جب بچہ کسی ناکامی کے بعد بھی ہمت نہ ہارے، اور دوبارہ کوشش کرنے کا ارادہ کرے۔
مثال کے طور پر، ایک بچہ جب اسٹیج پر اسکول کے ڈرامے میں اپنی لائن بھول جائے تو پہلا ردعمل ہو سکتا ہے کہ اسے تسلی دی جائے یا ایسی صورتحال سے بچایا جائے۔ لیکن جب اسے دوبارہ کوشش کرنے، بہتر تیاری کرنے اور اسٹیج پر واپس جانے کی اجازت دی جائے، تو یہ واپسی ان کی بہادری کی کہانی بن جاتی ہے کیونکہ اب وہ جان لیتے ہیں کہ ایک غلطی ان کی پہچان نہیں ہے اور یہی اصل خود اعتمادی ہے۔
عام خیال ہے کہ اچھے والدین وہ ہوتے ہیں جو ہر مسئلہ حل کر دے۔ لیکن بار بار مسائل حل کرنا بچوں کو یہ سکھاتا ہے کہ وہ خود کچھ نہیں کر سکتے۔

اصل مدد یہ ہے کہ آپ بچے کے ساتھ موجود رہیں، مگر ہر وقت کنٹرول نہ کریں۔ بچے کو اپنی غلطیوں کے نتائج بھگتنے دیں اگر بچہ پڑھائی نہ کرے اور نتیجتاً نمبر کم آئیں، تو اسے اس کا سامنا کرنے دیں۔ اس سے احساس ذمہ داری پیدا ہوتا ہے ۔ ہر تجربہ کے بعد بچہ خود ارادیت اور فیصلوں کی قیمت سیکھتا ہے۔
ناکامی سے حوصلہ بڑھتا ہے، کم نہیں ہوتا
یہ ماننا عام ہے کہ ناکامی بچے کا حوصلہ توڑ سکتی ہے، لیکن اگر اس کو درست انداز سے دیکھا جائے ایک سبق کی طرح، نہ کہ ذاتی ناکامی تو یہ اس کے بالکل برعکس اثرات ڈالتی ہے۔
وہ بچے جنہیں نرمی سے مایوسی اور ناکامی کے جذبات کو محسوس کرنے دیا جاتا ہے، وہ اپنے جذبات کو بہتر طریقے سے سمجھنا اور قابو پانا سیکھتے ہیں۔ انہیں یہ پتہ چلتا ہے کہ اداسی، غصہ یا مایوسی محسوس کرنا ٹھیک ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ اسے کیسے پیچھے چھوڑنا ہے۔ وقت کے ساتھ یہ ان کے جذباتی حوصلے کو مضبوط کرتا ہے۔
اکثر خیال کیا جاتا ہے کہ اگر بچہ بچپن سے ہی کامیاب ہو تو وہ ہمیشہ کامیاب رہے گا۔ لیکن تحقیق اور کامیاب لوگوں کی زندگی کی کہانیاں اس کے برعکس ہیں۔ یہ ظاہر کرتی ہے کہ جن بچوں نے ابتدا میں ناکامی دیکھی اور سیکھا، وہ بڑے ہو کر زیادہ مضبوط، تخلیقی اور حقیقت پسند بنے۔

جب بچہ اپنے بنائے گئے کسی منصوبے میں ناکام ہوتا ہے کسی مقصد میں ناکام ہوتا ہے، یا کھیل میں منتخب نہیں ہوتا، تو وہ صرف یہ نہیں سیکھتا کہ زندگی ہمیشہ منصف نہیں ہوتی ہے، بلکہ یہ بھی جانتا ہے کہ بہتر کیسے بننا ہے، نئی راہیں تلاش کرنی ہیں اور نئے طریقے آزمانے ہیں یہ زندگی کی وہ مہارتیں جو اسکول کی کتابیں نہیں سیکھاتی ہیں۔
محفوظ بچپن اور تیار بچپن میں فرق ہے
بچے کی حفاظت کرنا اور اسے تیار کرنا دونوں الگ باتیں ہیں۔ چیلنجز سے پاک زندگی مختصر مدت میں خوشگوار لگ سکتی ہے، مگر بعد میں مشکلات بڑھا سکتی ہے۔ جو بچے ہر چیز فوراً حاصل کر لیتے ہیں یا جنہیں کبھی ’نہ‘ نہیں کہا جاتا، انہیں عملی زندگی میں دنیا کی مشکلات کا مقابلہ کرنے میں دقت ہوتی ہے۔
اصل تیاری کا مطلب ہے کہ بچے کو کچھ تکلیف برداشت کرنے دیں۔ انہیں چھوٹی چھوٹی ناکامیوں کا سامنا کرنے دیں، جیسے کھیل ہارنا یا ذمہ داریوں سے غفلت کے نتائج بھگتنا، تاکہ وہ بڑے چیلنجز کے لیے تیار ہو۔
یہی سبق ان کی شخصیت کا وہ رہنما ستارہ بنے گا جو ہر مشکل وقت میں ان کے ساتھ چمکتا رہے گا۔