گزشتہ 80 برسوں کے دوران دنیا میں 2 ہزار سے زائد ایٹمی دھماکے کیے گئے جن کے اثرات آج بھی دنیا بھر میں محسوس کیے جا رہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق یہ دھماکے زیادہ تر نیوکلیر ہتھیاروں کو جانچنے اور اپنی عسکری طاقت دکھانے کے لیے کیے گئے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ روس نے 1949 سے 1989 تک تقریباً 450 ایٹمی دھماکے کیے، جن میں سے بیشتر قازقستان کے پوشیدہ قصبوں میں کیے گئے۔
دوسری جانب امریکا نے ایریزونا، نیواڈا، اوٹاہ، اوریگون، واشنگٹن اور ایڈاہو سمیت کئی ریاستوں میں اپنے تجربات کیے۔
ان ریاستوں کے رہائشیوں کو ”ڈاؤن ونڈرز“ کہا جاتا ہے، کیونکہ تابکاری اثرات نے انہیں براہِ راست متاثر کیا۔
نیواڈا میں کیے گئے دھماکوں کے باعث 2 لاکھ سے زائد افراد کینسر میں مبتلا ہوئے۔ صرف 1946 سے 1958 کے درمیان امریکا کے 67 دھماکے مارشل آئی لینڈ میں ریکارڈ پر آئے، جن کی شدت ہیروشیما پر گرائے گئے بم سے 7 ہزار 232 گنا زیادہ تھی۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ایٹمی دوڑ کی ابتدا جاپان پر ایٹمی حملوں کے بعد ہوئی، جہاں ہیروشیما اور ناگاساکی میں ایک لاکھ 10 ہزار سے زائد افراد چند لمحوں میں موت کے منہ میں چلے گئے۔
بعد ازاں بھارت، پاکستان اور شمالی کوریا نے بھی اپنے ایٹمی ہتھیاروں کے ٹیسٹ کیے۔ شمالی کوریا نے آخری بار 2017 میں تجربات انجام دیے۔
سائنس دانوں کے مطابق 1980 کے بعد فضائی آلودگی کے براہِ راست ٹیسٹ نہیں کیے گئے، تاہم تابکاری اثرات اب بھی دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں اور ان کی وجہ سے کینسر سمیت متعدد بیماریوں کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق دنیا نے آج بھی ہیروشیما کے ایٹمی حملوں سے سبق نہیں سیکھا۔