مذاکرات کا تیسرا دور: کیا شرم الشیخ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان پیش رفت ممکن ہے؟

0 minutes, 0 seconds Read

مصر کے ساحلی شہر شرم الشیخ میں جاری اسرائیل اور حماس کے درمیان امن مذاکرات میں بدھ کے روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرقِ وسطیٰ کے لیے اعلیٰ مشیر اسٹیو وٹکاف اور داماد جیرڈ کشنر کی شمولیت کے بعد مذاکرات نئے مرحلے میں داخل ہو گئے ہیں۔

ایسوسی ایٹیڈ پریس (اے پی) کے مطابق ان اعلیٰ سطحی شخصیات کی آمد اس بات کا اشارہ ہے کہ فریقین امریکی امن منصوبے کے سب سے مشکل نکات پر براہِ راست گفت و شنید کے لیے تیار ہیں۔

اے پی کے مطابق مذاکرات کے تیسرے روز ثالثی ٹیمیں جنگ بندی کے ممکنہ معاہدے کے مسودے پر پیش رفت کی کوشش کر رہی ہیں جبکہ حماس کا کہنا ہے کہ وہ ٹرمپ انتظامیہ اور ثالثوں سے اس بات کی ٹھوس ضمانت چاہتی ہے کہ اسرائیل یرغمالیوں کی رہائی کے بعد دوبارہ عسکری کارروائیاں شروع نہیں کرے گا۔

قطر کے وزیراعظم اور وزیرِ خارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمان الثانی بھی بات چیت میں شریک ہونے کے لیے شرم الشیخ پہنچ گئے ہیں۔ اسرائیل کی نمائندگی وزیراعظم نیتن یاہو کے قریبی مشیر رون ڈرمیر کر رہے ہیں۔


AAJ News Whatsapp

مذاکرات میں حماس کے ساتھ دیگر فلسطینی گروہوں، جیسے فلسطینی اسلامی جہاد اور پاپولر فرنٹ فار دی لبرریشن آف فلسطین کے نمائندوں کی شرکت بھی متوقع ہے تاکہ مذاکرات کو جامع شکل دی جا سکے۔

امریکی امن منصوبے کے تحت فوری جنگ بندی، حماس کی جانب سے باقی 48 اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی، تنظیم کا غیرمسلح ہونا، اسرائیلی فوج کا تدریجی انخلا، اور غزہ میں ایک بین الاقوامی انتظامی نظام کے قیام کی تجویز دی گئی ہے۔ منصوبے کے نفاذ کی نگرانی ڈونلڈ ٹرمپ اور برطانوی سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر کریں گے۔

مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے مذاکرات کے حوالے سے اپنے تازہ بیان میں کہا ہے کہ اب تک کی پیش رفت “حوصلہ افزا” ہے۔ اسرائیلی حکومت نے بھی محتاط انداز میں امید ظاہر کی ہے کہ فریقین ایک متفقہ فارمولے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔

صدر السیسی کا کہنا ہے کہ اگر اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی معاہدہ طے پا گیا تو وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو مصر میں ہونے والی دستخطی تقریب میں شرکت کی دعوت دیں گے۔

دوسری جانب حماس نے اپنے دیرینہ مطالبات دہرائے ہیں جن میں مستقل جنگ بندی، مکمل اسرائیلی انخلا اور غزہ کی خودمختاری شامل ہیں، تاہم اس نے غیرمسلح ہونے یا بین الاقوامی نگرانی کے نکات پر خاموشی اختیار کی ہے۔

واضح رہے کہ غزہ کی صورتحال بدستور سنگین ہے۔ غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران اسرائیلی حملوں میں کم از کم 8 فلسطینی شہید اور 61 زخمی ہوئے ہیں جبکہ اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہے کہ غزہ سٹی میں گولانی بریگیڈ نے فضائی مدد سے کئی جنگجوؤں کو ہلاک کیا ہے۔
ترجمان کے مطابق کارروائی میں کوئی اسرائیلی اہلکار زخمی نہیں ہوا۔

اقوام متحدہ کے مطابق دو سالہ جنگ میں اب تک 67 ہزار سے زائد فلسطینی جاں بحق اور تقریباً 1.7 لاکھ زخمی ہو چکے ہیں۔ بیشتر علاقے کھنڈرات میں بدل چکے ہیں اور لاکھوں شہری خیمہ بستیوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔

گذشتہ روز غزہ امن منصوبے پر فریقین کے درمیان مصر کے سیاحتی شرم الشیخ میں بالواسطہ مذاکرات کے دوران فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس نے 6 مطالبات پیش کیے تھے۔

ادھر اوول آفس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدر ٹرمپ نے غزہ معاہدے میں پیش رفت پر امید ظاہر کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ انہیں لگتا ہے مشرقِ وسطیٰ میں امن قائم ہونے کا امکان ہے جو صرف غزہ تک محدود نہیں۔

Similar Posts