آئی ایم ایف اور پاکستان میں گُڈ گورننس و کرپشن رپورٹ پر اختلافات، مذاکراتی عمل میں پیچیدگیاں پیدا ہو گئیں

0 minutes, 0 seconds Read

پاکستان اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے درمیان جاری مذاکرات کے آخری روز کرپشن اور گُڈ گورننس سے متعلق رپورٹ پر اختلافات سامنے آگئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق دونوں فریقین کے درمیان اس رپورٹ کی اشاعت اور اس کے مندرجات پر اب تک اتفاق رائے نہیں ہو سکا، جس کے باعث مذاکراتی عمل میں پیچیدگیاں پیدا ہو گئی ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف نے کرپشن فریم ورک کے مؤثر نفاذ کے لیے ایک اعلیٰ سطحی ٹاسک فورس قائم کرنے کی تجویز دی ہے، جو سرکاری افسران کے اثاثوں کے جائزے اور شفافیت کے عمل کو یقینی بنائے گی۔ اس سلسلے میں افسران کے اثاثوں کی تفصیلات ایف بی آر کو فراہم کرنے کے لیے نئے قواعد تیار کیے جائیں گے۔

بریفنگ کے مطابق سول سرونٹس ایکٹ 1973 میں ترمیم اور حکومتی معاونین کے اثاثے ظاہر کرنے کے لیے الیکشن ایکٹ میں تبدیلی پر غور جاری ہے۔ مزید برآں، نیب اور ایف آئی اے کے اختیارات میں ہم آہنگی پیدا کرنے اور ان اداروں میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے ذریعے تحقیقات کو مؤثر بنانے کی تجاویز زیرِ غور ہیں۔

ذرائع کے مطابق کرپشن کی روک تھام کے لیے عوامی آگاہی مہم چلانے اور اینٹی کرپشن اداروں کو منی لانڈرنگ کیسز کی تحقیقات کا اختیار دینے کی سفارش بھی زیرِ غور آئی ہے۔


AAJ News Whatsapp

دوسری جانب، مذاکرات میں پاکستان نے خصوصی اقتصادی زونز میں موجود ٹیکس مراعات کو برقرار رکھنے کی بھرپور درخواست کی ہے۔

ذرائع کے مطابق پاکستان نے آئی ایم ایف سے 2035 تک مراعات ختم کرنے کی شرط پر نظرِ ثانی کی اپیل کی ہے۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ ان مراعات کی جلدی واپسی سے سرمایہ کاری کے رجحان پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔

ذرائع کے مطابق اگر آئی ایم ایف نے پاکستان کی تجویز قبول نہ کی تو تمام مراعات آئندہ 10 سالہ منصوبے کے تحت بتدریج ختم کر دی جائیں گی۔

علاوہ ازیں، مذاکرات کے دوران بیگیج اور گفٹ اسکیمز ختم کرنے پر اتفاق ہو گیا ہے جبکہ ’’ٹرانسفر آف ریذیڈنس‘‘ اسکیم کو مزید سخت بنانے کے لیے 15 اکتوبر کی ڈیڈ لائن مقرر کر دی گئی ہے۔

ذرائع کے مطابق اب صرف ایک سال استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد اس اسکیم کے تحت ممکن ہوگی، جبکہ پانچ سال پرانی گاڑیوں کی درآمد مخصوص شرائط کے ساتھ دی جائے گی۔ جاپان اور برطانیہ سے دبئی کے راستے گاڑیاں درآمد کرنے کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے سخت اقدامات بھی لازمی قرار دیے گئے ہیں۔

کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) سے ان فیصلوں کی حتمی منظوری رواں ماہ لی جائے گی جبکہ 15 اکتوبر تک پاکستان کو آئی ایم ایف کو ان فیصلوں کی اپڈیٹ فراہم کرنی ہوگی۔

Similar Posts