انڈین بھیڑیا آئی یوسی این کی خطرے سے دوچار انواع کی لسٹ میں شامل

جنوبی ایشیا میں پائے جانے والے نایاب انڈین وولف کو بین الاقوامی تنظیم برائے تحفظِ قدرتی وسائل (آئی یو سی این) کی تازہ ترین ریڈ لسٹ میں باقاعدہ طور پر خطرے سے دوچار نسل قرار دے دیا گیا ہے۔ یہ درجہ بندی آبادی میں تیزی سے کمی، قدرتی مسکن کے سکڑنے اور انسانی دباؤ کے باعث کی گئی ہے۔ ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ اگر فوری حفاظتی اقدامات نہ کیے گئے تو اگلی ایک دہائی میں یہ جانور پاکستان کے کئی علاقوں سے مکمل طور پر غائب ہو سکتا ہے۔

تحقیق کے مطابق جنوبی ایشیا میں انڈین وولف کی بالغ آبادی تقریباً تین ہزار کے قریب رہ گئی ہے۔ جن میں سے ایک چھوٹی مگر اہم تعداد پاکستان میں موجود ہے۔ پاکستان میں ان کے نشانات زیادہ تر جنوبی پنجاب کے چولستان،  سالٹ رینج اور سندھ کے ریگستانی علاقوں میں پائے گئے ہیں۔ چولستان کے میدانوں میں کی جانے والی حالیہ جینیاتی تحقیق نے اس نسل کی موجودگی کی تصدیق کی ہے، جب کہ سالٹ رینج  میں تقریباً 40 کے قریب بھیڑیوں کے گروہ دیکھے گئے ہیں۔ اس کے برعکس سندھ میں یہ نسل اب نہایت محدود ہو چکی ہے اور صرف تھرپارکر کے چند حصوں میں باقی ہے۔

یونیورسٹی آف ایجوکیشن اٹک کی اسسٹنٹ پروفیسر اور محقق حرا فاطمہ جو انڈین وولف سروے ٹیم کا حصہ ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں ان جانوروں کی اکثریت ایسے علاقوں میں پائی جاتی ہے جہاں کوئی باضابطہ تحفظاتی نظام موجود نہیں۔ زرعی زمینوں کی توسیع، چراگاہوں میں کمی، غیر قانونی شکار اور انسانی آبادی کے پھیلاؤ نے ان کے قدرتی مسکن کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ کئی مقامات پر کسان اور چرواہے مویشیوں پر حملے کے خدشے کے باعث بھیڑیوں کو ہلاک کر دیتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق محکمہ جنگلات یا وائلڈ لائف کے پاس ان کے تحفظ سے متعلق کوئی جامع پالیسی یا مانیٹرنگ نظام موجود نہیں، جس کے باعث ان کی بقا کو خطرات مزید بڑھ گئے ہیں۔

رائس یونیورسٹی امریکا کی اسسٹنٹ پروفیسر  اور انڈین وولف سروے کی اہم ٹیم ممبر ڈاکٹر لورین ہینلے نے بتایا جینیاتی تحقیق کے مطابق پاکستان میں اس نسل کے صرف 269 سے 290 بالغ بھیڑیے باقی رہ گئے ہیں۔ جن میں سے 42 افزائشی جوڑے شناخت کیے گئے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ  جینیاتی مطالعہ  2022 میں شمالی پاکستان سے شروع ہوا اور جنوبی پاکستان سے پہلا جینیاتی نمونہ جنوری 2024 میں حاصل کیا گیا۔ جنوبی پاکستان میں جاری یہ سروے کم از کم فروری 2026 تک مکمل ہونے کی توقع ہے۔ تحقیق میں سندھ، پنجاب اور بلوچستان کے وائلڈ لائف محکموں کے علاوہ ماہرینِ حیاتیات اور بین الاقوامی ادارے شریک ہیں۔

وائلڈ لائف بیالوجسٹ اور سائنس کمیونیکیٹر عمر خیام کے مطابق انڈین وولف کا سب سے بڑا دشمن بندوق نہیں بلکہ بلڈوزر ہے۔ ان کے بقول یہ جانور گھاس زاروں میں رہتا ہے، مگر پاکستان میں گھاس زار کو کبھی قدرتی مسکن کے طور پر تسلیم نہیں کیا گیا۔ زراعت اور صنعت کے پھیلاؤ نے ان کے مسکن ختم کر دیے ہیں۔ سڑکوں کی تعمیر، آوارہ کتوں کی افزائش، قدرتی شکار کی کمی، اور انسانی تصادم نے بھیڑیے کو مزید کمزور کر دیا ہے۔ ان کے مطابق بعض علاقوں میں مادہ بھیڑیوں کو مار کر ان کے بچے فروخت کیے جاتے ہیں، جبکہ آوارہ کتوں سے پھیلنے والی بیماریاں جیسے ریبیز اور ڈسٹیمپر بھی ان کی بقا کے لیے مہلک خطرہ بن چکی ہیں۔

آئی یو سی این کی رپورٹ کے مطابق انڈین وولف جنوبی ایشیا کا سب سے قدیم گوشت خور جاندار ہے، جو تقریباً ایک لاکھ دس ہزار سال سے اس خطے میں موجود ہے۔ جینیاتی لحاظ سے یہ دیگر بھیڑیوں سے منفرد ہے، مگر طویل عرصے تک اسے تحقیق اور پالیسی دونوں سطحوں پر نظرانداز کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق اس نسل کی آبادی میں کمی کی رفتار تقریباً تین فیصد سالانہ ہے، جو اگلے پندرہ برسوں میں تیس سے چالیس فیصد مزید کمی کا باعث بن سکتی ہے۔

عمر خیام کے مطابق اب پاکستان کو فوری طور پر ایک قومی انڈین وولف کنزرویشن پلان تشکیل دینا چاہیے جس میں چرواہوں کے نقصان کے معاوضے، مویشیوں کی انشورنس، اور مقامی کمیونٹی کی شمولیت کو یقینی بنایا جائے۔ ان کے مطابق مویشیوں کی چراگاہوں میں تربیت یافتہ چرواہے کی موجودگی سے بھیڑیوں کے حملے نمایاں طور پر کم ہو جاتے ہیں۔

وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کو مل کر سرحد پار تعاون بڑھانا چاہیے، کیونکہ یہ جانور دونوں ممالک کے خشک خطوں میں یکساں طور پر رہائش رکھتے ہیں، اور سرحدی باڑ جینیاتی تنوع میں رکاوٹ بن رہی ہے۔

آئی یو سی این کی رپورٹ میں انڈین وولف کو جنوبی ایشیا کی حیاتیاتی تاریخ کا قدیم ورثہ قرار دیا گیا ہے جو اب انسانی سرگرمیوں اور موسمیاتی دباؤ کے باعث تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔

ماہرین کے مطابق پاکستان میں اس کی محدود موجودگی اس بات کی متقاضی ہے کہ اسے قومی وائلڈ لائف پالیسی میں شامل کیا جائے تاکہ چولستان، پوٹھوہار اور تھر جیسے علاقوں میں اس کے مسکن کو محفوظ بنا کر بقا کی ایک نئی امید پیدا کی جا سکے۔

Similar Posts