پاکستان میں بہت سے علاقوں میں ابھی بھی پانی کھڑا ہے جس کی نکاسی کا کوئی فوری انتظام نظر نہیں آ رہا ہے۔ سیلاب زدہ علاقوں میں بارش ہوتی رہی۔ دریاؤں کی لہروں نے ستم ڈھایا اور جب سیلاب اترا تو معلوم ہوا کہ تالاب جوہڑ، گڑھے، نالے، گلیاں تھوڑے بہت پانی سے لبریز،گھروں میں چھوٹے چھوٹے جوہڑ بن گئے تھے۔ گاؤں کے بزرگ یہ کہتے سنے گئے کہ جب پانی بہنا چھوڑ دے تو یہ زہر بن جاتا ہے۔
یہی زہر جب ہوا میں تحلیل ہو رہا تھا اسی میں ڈنگی مچھروں کی پرورش ان چھوٹے چھوٹے پانی کے گڑھوں میں ہو رہی تھی اور پنجاب میں اب ان کی سلطنت قائم ہو گئی ہے۔ اسی طرح یہ سلسلہ پورے پاکستان میں پھیل چکا ہے۔ محکمہ صحت کی رپورٹ کو آئی ایم ایف کو سیلاب کے جائزے میں رکھنا چاہا تھا۔ جب رپورٹ کیا جا رہا تھا کہ ایک مہینے میں ڈنگی کے کیسز میں 4.5 فی صد اضافہ ریکارڈ ہوا ہے۔
پنجاب اور سندھ کے بہت سے شہروں میں اسپتالوں کے وارڈ بھرنے لگے ہیں۔ یہ وہ مچھر ہیں جو صاف اور ٹھہرے پانی میں انڈے دیتے ہیں۔ وہی پانی جو صحنوں میں کھڑا ہے کنوؤں کے پاس ہے گلیوں میں سڑکوں پر کسی کونے میں ہفتوں سے کھڑا ہے۔ پہلے کسانوں کی فصلیں گئیں، بندے بچھڑ گئے، مال مویشی مر گئے، سامان سیلاب کے ساتھ بہہ کر چلا گیا۔ کسان نے سمجھا ہوگا کہ مصیبت کے دن گئے اب تعمیر کا مرحلہ آ گیا ہے۔
اب وہی کسان خود ہی اسپتال کی قطار میں کھڑا ہے۔ ڈاکٹر مریضوں کو چیک کر رہے تھے کہ دوا کے ساتھ مکمل آرام انتہائی ضروری ہے مگر کسان کو تو گھر والوں کے لیے اپنے بچوں کے لیے ایک عارضی گھر بنانا تھا۔ کھیت اس کا انتظار کر رہے تھے کہ کب مالک پانی سے ہمیں نجات دلائے گا۔ یہ ڈنگی کا بخار صرف مریض کو نہیں بلکہ بہت کچھ بگاڑ دیتا ہے۔ جب ہزاروں کسان، مزدور کام پر نہ جا سکیں بچے اسکول نہ جا پائیں، خواتین گھروں میں بیمار پڑ جائیں تو سمجھیں کہ معیشت کی رفتار بھی بخار میں مبتلا ہو جاتی ہے۔
ادویات، سیرپ، ٹیسٹ اسپرے سب کے سب مہنگے ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ غریب کسان اور مزدور علاج کرائے آرام کرے یا پھر روزی روٹی کا انتظام کرے۔ آئی ایم ایف نے سیلاب کے جائزے میں اس بات کا نوٹس نہیں لیا۔ شاید اس کے لیے یہ معمولی بات ہوگی کہ ڈنگی مریضوں کی کثرت ہو رہی ہے اور یہ جان لیوا مرض ہے۔ اگر یہ صورتحال یورپ کے کسی ملک کی ہوتی تو آئی ایم ایف اس طرف بھرپور توجہ دیتا کہ صحت کے شعبے کو فنڈز سے مالا مال کر دیتا۔ سیلابی پانی تو ہفتوں سے کھڑا ہے پھر آئی ایم ایف نے کس بات کا جائزہ لیا ہے۔
اگرچہ پانی آہستہ آہستہ خشک ہو رہا ہے مگر ڈنگی بخار کے وسیع پھیلاؤ نے حکومت انتظامیہ مقامی حکومتوں اسپتال کے عملے ڈاکٹر مریض عام شہری بچے بوڑھے جوان خواتین سب کو خوف میں مبتلا کر دیا ہے۔ اس خوف کے اثرات کا آئی ایم ایف کے پاس علاج ہے، مگر وہ اس کے لیے جب بھی فنڈ دیں گے وہ قرض دیں گے اور پھر پاکستان پر قرض بڑھتا رہے گا۔
ڈنگی مرض کو کنٹرول کرنے کے لیے محکمہ ریلوے کا اہم کردار ہو سکتا ہے۔ ہزاروں ملازمین میں سے چند ہزار کو ہفتے دس دن کے لیے ریلوے لائن کے ساتھ جہاں بھی پانی جمع ہے اور مچھروں کی افزائش ہو رہی ہے ان تمام پرورش گاہوں کو ختم کرنے کی ڈیوٹی دی جائے۔ کہیں پانی خشک کرنے کی ضرورت ہوگی کہیں مٹی بھرنے کی ضرورت ہوگی۔ اس کے علاوہ بہت سی غیر آباد سوسائٹیز ہیں جہاں بڑے بڑے گڑھے اور چھوٹے چھوٹے تالاب بن چکے ہیں اور پانی ابھی تک کھڑا ہے۔ لہٰذا سوسائٹی مالکان کی یہ ذمے داری ہونی چاہیے کہ ان کی سوسائٹیز میں کسی جگہ پر بھی پانی کھڑا ہے تو اس کی فوری صفائی کرائیں اور اس سلسلے میں مقامی بلدیہ اس کی نگرانی کرے عملدرآمد نہ ہونے کی صورت میں صوبائی حکومت جرمانے کی رقم کا تعین کر سکتی ہے۔
اس طرح رقم حاصل کرنے کے بعد مقامی انتظامیہ اس عمل کو مکمل کرے۔ بہت سی کمپنیز ہیں جن کے پاس وسیع احاطہ موجود ہے، وہ وہاں پر چیک کریں کہ کسی مقام پر پانی کھڑا ہو تو اسے فوراً خشک کر لیا جائے۔ بہت سے اسکول، کالجز، یونیورسٹیاں، انسٹیٹیوٹ وغیرہ ایسے ہیں جہاں اس طرح سے پانی کھڑا ہے، لہٰذا ان تمام جگہوں پر کھڑے پانی کو صاف کرنے کی ضرورت ہے۔ بہت سے باغات بھی ایسے ہیں جہاں اس بات کا خیال کرنا ضروری ہے کہ وہاں سے کھڑے ہوئے پانی کی نکاسی کا عمل فوری شروع کر دیا جائے۔
اس سلسلے میں جرمانہ اگر کیا جاتا ہے تو وہ رقم مقامی انتظامیہ کو ملنی چاہیے تاکہ ان کی آمدن میں اضافہ ہو اور فنڈز ملنے کے بعد صفائی کا عمل جاری رکھ سکیں۔ اسی طرح کی باتیں سننے میں آ رہی ہیں کہ بلدیہ والے یا میونسپل کمیٹی والے کارکنان کہتے ہیں کہ کچھ جگہوں کی صفائی کرتے ہیں پانی نکال دیتے ہیں اسپرے کرنے کے بعد فنڈز ہی ختم ہو جاتا ہے، لہٰذا سامان کی عدم موجودگی کے باعث پانی نکالنے یا خشک کرنے کا عمل عارضی طور پر رک جاتا ہے جب کہ ڈنگی مچھروں کے حملے بالکل ہی نہیں رکتے۔ جس کے باعث ہزاروں افراد ہر روز اسپتالوں کا رخ کر رہے ہیں۔