سیکرٹ ایکٹ کے تحت تو اب بغیر پاس کے کنٹونمنٹ میں داخلے پر کورٹ مارشل ہوگا، جسٹس نعیم اختر افغان

0 minutes, 0 seconds Read

سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کو کالعدم قرار دینے کے فیصلے کے خلاف وفاقی حکومت کی اپیل پر سماعت ہوئی، جس میں جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دئے کہ سیکرٹ ایکٹ کے تحت اب بغیر پاس کے کنٹونمنٹ میں داخلہ جرم تصور ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی شخص بغیر اجازت کنٹونمنٹ ایریا میں داخل ہوتا ہے تو اس کا کورٹ مارشل ہوسکتا ہے۔

جمعرات کو جسٹس امین الدین کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بینچ اس اہم کیس کی سماعت کی۔ بینچ میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال شامل ہیں۔ دوران سماعت وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے جوابی دلائل پیش کیے۔

سپریم کورٹ نے 9 مئی کے مقدمات سماعت کے لیے مقرر کر دیے

سماعت کے دوران بینچ کے ججز اور وکیل خواجہ حارث کے درمیان اہم قانونی نکات اور فوجی عدالتوں کے دائرہ اختیار سے متعلق تفصیلی سوال و جواب کا سلسلہ جاری رہا۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ گٹھ جوڑ کا لفظ بہت خطرناک ہے، اور کہا کہ کنٹونمنٹ ایریا میں جانے والوں کا بھی کورٹ مارشل ہوسکتا ہے، سیکرٹ ایکٹ کے مطابق اب بغیر پاس کے کنٹونمنٹ ایریا میں جانے والے کا کورٹ مارشل ہوگا۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ کنٹونمنٹ علاقوں میں شاپنگ مالز اور فوڈ کورٹس بن چکے ہیں، جہاں روزمرہ شہریوں کی آمد و رفت عام ہے، اس لیے ایسے قوانین سے سویلینز کے متاثر ہونے کا خطرہ ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے بھی سوال اٹھایا کہ ممنوعہ جگہوں کی واضح تعریف ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈیفنس آف پاکستان اور ڈیفنس سروسز آف پاکستان دو علیحدہ تصورات ہیں، اور شاپنگ مالز یا مرکزی شاہراہوں کو ممنوعہ علاقہ قرار دینا مناسب نہیں ہوگا۔

وکیل خواجہ حارث نے جواب میں کہا کہ صرف وہی جرم فوجی عدالت کے دائرے میں آتا ہے جو مسلح افواج پر براہ راست اثر انداز ہو۔ انہوں نے کہا کہ سروس میں شامل تمام افراد آرمڈ فورسز کے ممبرز ہوتے ہیں، اور ممنوعہ جگہ میں داخل ہونا جرم کے زمرے میں آتا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ اگر ایسی تشریحات کو تسلیم کیا گیا تو کسی بھی شخص کا ملٹری ٹرائل آسان ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ وہ خود کنٹونمنٹ ایریا میں رہتے ہیں اور بعض اوقات بغیر اجازت اندر نہیں جانے دیا جاتا۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ لاہور، کوئٹہ، گوجرانوالہ میں کینٹ کے علاقے ہیں، ایسے میں تو سویلین انڈر تھریٹ ہوں گے۔

جس پر وزارت دفاع کے وکیل نے کہا کہ ایسا تب ہوگاجہاں کسی علاقے کو ممنوعہ قرار دیتے ہوئے اسے نوٹیفائی کیا گیا ہو۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے بتایا کہ سپریم کورٹ کے پانچ سے چھ ججز کلفٹن کینٹ کے رہائشی ہیں، مگر وہاں ممنوعہ علاقہ نوٹیفائی نہیں ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ شاپنگ مالز کو ممنوعہ علاقہ تو قرار نہیں دیا جاتا۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کوئٹہ کینٹ میں تو آئے روز اس نوعیت کے جھگڑے دیکھنے کو ملتے ہیں۔

جسٹس محمد علی مظہرنے کہا کہ کراچی میں چھ سے سات کینٹ ایریاز ہیں، وہاں ایسا تو نہیں ہے کہ مرکزی شاہراہوں کو بھی ممنوعہ علاقہ قرار دیا گیا ہو۔

دوران سماعت جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ ’کیا ملٹری کورٹس میں زیادہ سزائیں ہوتی ہیں، اس لیے کیسز وہیں بھیجے جاتے ہیں؟‘ انہوں نے عام عدالتوں میں ٹرائل نہ ہونے پر بھی سوال اٹھایا۔

خواجہ حارث نے نیب قانون کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اس میں بھی الزام لگنے پر ملزم کو بے گناہی ثابت کرنی پڑتی ہے۔

گلگت بلتستان ججز کی تعیناتی: وفاق کو آرڈر 2019 پسند نہیں تو دوسرا بنا لے لیکن کچھ تو کرے، جسٹس جمال مندوخیل

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ’آرمی ایکٹ درست قانون ہے، مگر آئین کے آرٹیکل 10-A کے بعد حالات تبدیل ہو چکے ہیں۔‘ انہوں نے سوال اٹھایا کہ ملٹری ٹرائل کے لیے کوئی آزادانہ فورم کیوں نہیں ہے۔

خواجہ حارث نے مؤقف اپنایا کہ آئین فوجی عدالتوں کے ٹرائل کو بنیادی حقوق کے تناظر میں جانچنے کی اجازت نہیں دیتا۔

عدالت نے کیس کی مزید سماعت 15 اپریل تک ملتوی کر دی ہے۔ اگلی سماعت میں بھی خواجہ حارث جوابی دلائل جاری رکھیں گے۔

Similar Posts