ملیر جیل سے فرار قیدیوں کی تلاش پولیس کے لیے دردِ سر، 216 میں سے صرف 91 گرفتار

0 minutes, 0 seconds Read

کراچی کی ملیر جیل سے قیدیوں کا فرار پولیس اور جیل انتظامیہ کے لیے ایک بڑا امتحان بن چکا ہے۔ 216 مفرور قیدیوں میں سے اب تک صرف 91 کو دوبارہ گرفتار کیا جا سکا ہے، جب کہ 125 قیدی تاحال آزاد گھوم رہے ہیں۔ پولیس کے لیے ان کی تلاش ایک مشکل مہم بنتی جا رہی ہے، جو 24 گھنٹے گزرنے کے باوجود مکمل نہ ہو سکی۔

گزشتہ رات مزید دو قیدیوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے، جن میں ایک قیدی کو اس کے بھائی نے ازخود پولیس کے حوالے کر دیا۔ اس پیشرفت کے باوجود باقی قیدیوں کا سراغ لگانا پولیس کے لیے ایک معمہ بن گیا ہے۔ فرار ہونے والے بعض قیدیوں کی قریبی گلی سے گزرنے کی ویڈیوز بھی سامنے آ چکی ہیں، جس سے پولیس نے سرچ آپریشن کا دائرہ مزید بڑھا دیا ہے۔

اس واقعے کے بعد جیل انتظامیہ کے خلاف سخت کارروائی کی گئی ہے۔ ڈی آئی جی جیل خانہ جات اور سپرنٹنڈنٹ ملیر جیل کو معطل کر دیا گیا ہے۔ غفلت برتنے پر ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ، اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ، تین کانسٹیبلز اور اٹھارہ دیگر جیل اہلکاروں کو بھی معطلی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

ملیر جیل سے فرار ہونے والے قیدیوں کا مقدمہ تھانہ شاہ لطیف ٹاؤن میں درج کر لیا گیا ہے اور شہر بھر میں سیکورٹی ہائی الرٹ ہے۔ تاہم، تاحال پولیس ان 125 قیدیوں کو گرفتار کرنے میں ناکام ہے، جو قانون کے لیے کھلا چیلنج بن چکے ہیں۔

ملیر جیل سے 216 قیدی فرار ہوئے، وزیراعلیٰ سندھ کی تصدیق

کراچی کی ملیر جیل سے قیدیوں کے فرار کے سنسنی خیز واقعے پر وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے سنگین غفلت قرار دیا ہے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ زلزلے کے باعث قیدیوں میں گھبراہٹ ضرور ہوئی تھی، تاہم اس صورتحال میں قیدیوں کو بیرکس سے نکالنا سراسر غلط فیصلہ تھا جس کے سنگین نتائج سامنے آئے۔

مراد علی شاہ نے پریس بریفنگ میں بتایا کہ ملیر جیل میں اس وقت 6 ہزار سے زائد قیدی موجود ہیں اور ابتدائی رپورٹ کے مطابق 216 قیدی جیل سے فرار ہوئے جن میں سے کئی کی گرفتاری کے لیے آپریشن جاری ہے۔ انہوں نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ واقعے میں ایک قیدی کے جاں بحق ہونے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔

وزیراعلیٰ نے واضح کیا کہ جیل حکام کی جانب سے قیدیوں کو بیرکس سے باہر نکالنے کا اقدام غیر ذمہ دارانہ تھا اور اس غفلت کے مرتکب اہلکاروں کو ہر صورت سزا دی جائے گی۔ مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ جیلوں میں سیکیورٹی کے انتظامات ازسرنو دیکھے جا رہے ہیں اور واقعے کی مکمل تحقیقات کی جائیں گی۔

انہوں نے کہا کہ حکومت سندھ اس افسوسناک واقعے کو ہرگز نظرانداز نہیں کرے گی، اور نہ ہی قیدیوں کی سیکیورٹی کو معمولی سمجھا جا سکتا ہے۔ وزیراعلیٰ نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہدایت کی ہے کہ فرار ہونے والے تمام قیدیوں کو جلد از جلد گرفتار کیا جائے اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف بھی سخت کارروائی عمل میں لائی جائے۔

جیل حکام نے کسی قسم کی غفلت نہیں برتی: سپرنٹنڈنٹ ارشد شاہ کی وضاحت

سپرنٹنڈنٹ ملیر جیل ارشد شاہ نے جیل سے قیدیوں کے فرار ہونے کے واقعے پر میڈیا سے گفتگو کرتے کہا کہ زلزلے کے جھٹکوں کے بعد جیل میں خوف و ہراس پھیل گیا، جس پر قیدیوں نے شور شرابا شروع کر دیا۔ ان کے مطابق دو سے ڈھائی ہزار قیدی ایک ہی مقام پر جمع ہوگئے جس سے صورتحال بگڑ گئی۔

ارشد شاہ نے بتایا کہ بھگدڑ کے دوران جیل کے دروازوں کے کنڈے ٹوٹ گئے اور اسی ہنگامے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے 216 قیدی فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ انہوں نے کہا کہ قیدیوں کو روکنے کی کوشش پر ایف سی اہلکاروں نے فائرنگ بھی کی، جس کے نتیجے میں ایک رینجرز اہلکار زخمی ہوا۔

سپرنٹنڈنٹ جیل نے کہا کہ زلزلے کے بعد انہوں نے قیدیوں کو تسلی دینے کی کوشش کی کہ گھبرائیں نہیں، لیکن افراتفری نے حالات کو بے قابو کر دیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ جیل حکام نے کسی قسم کی غفلت نہیں برتی اور سیکیورٹی میں کوئی واضح کمی نہیں تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ مجھے جیسے ہی کال موصول ہوئی، میں فوراً جیل پہنچا، مگر قیدیوں نے مجھ پر بھی حملہ کردیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ جیل میں سیفٹی کیمروں کی تنصیب کا عمل سندھ حکومت کے تعاون سے جاری ہے تاکہ آئندہ ایسی کسی بھی صورتحال پر قابو پایا جا سکے۔ ارشد شاہ نے بتایا کہ بھگدڑ کا واقعہ رات 11 بجے کے بعد پیش آیا جب قیدیوں نے خوف کی حالت میں قابو کھو دیا۔ اس وقت جیل میں صرف 28 اہلکار سیکیورٹی پر مامور تھے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ فرار ہونے والے بیشتر قیدی منشیات کے عادی اور انڈر ٹرائل تھے جنہیں جیل کا مخصوص لباس فراہم نہیں کیا جاتا۔

واقعہ کیسے پیش آیا؟

کراچی میں منگل کی صبح اُس وقت ہلچل مچ گئی جب ملیر جیل سے اچانک سیکڑوں قیدی فرار ہو گئے۔ جیل میں اچانک زلزلے کے جھٹکوں کے بعد قیدیوں نے شورش برپا کی، گولیاں چل گئیں، اور قیدی دیواریں پھلانگ کر قریبی آبادیوں میں جا نکلے۔ پولیس، رینجرز اور ایف سی اہلکاروں نے فوری کارروائی کرتے ہوئے اب تک 90 قیدیوں کو دوبارہ گرفتار کر لیا گیا، تاہم باقی قیدی تاحال لاپتہ ہیں۔

واقعے کے دوران فائرنگ کے تبادلے میں ایک قیدی مارا گیا۔ ۔ دو پولیس اور دو ایف سی اہلکاروں سمیت بارہ افراد زخمی بھی ہوئے۔ جنہیں فوری طور پر قریبی اسپتال منتقل کر دیا گیا۔

ڈی آئی جی جیل خانہ جات حسن سہتو کے مطابق صورتحال پر قابو پا لیا گیا ہے اور جیل اب مکمل طور پر کنٹرول میں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ قیدیوں نے زلزلے کے بہانے سے بیرکس سے باہر نکلنے کا موقع بنایا، تاہم کسی بھی خطرناک مجرم کے فرار ہونے کی تصدیق نہیں ہوئی۔

کراچی میں زلزلوں کی لہر معمہ بن گئی، 24 گھنٹوں میں 10 جھٹکے

ایڈیشنل آئی جی کراچی جاوید عالم اوڈھو نے کہا کہ ’میں نے خود جائے وقوعہ کا دورہ کیا، خوش قسمتی سے کوئی بڑی تباہی نہیں ہوئی، اور سب قیدی زیادہ تر چھوٹے جرائم میں ملوث تھے۔‘

صوبائی وزیر داخلہ ضیاء الحسن لنجار نے ملیر جیل کا ہنگامی دورہ کیا، جہاں ایس ایس پی ملیر کاشف عباسی نے انہیں صورتحال سے آگاہ کیا۔ وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ جیل کی دیوار نہیں توڑی گئی بلکہ قیدیوں نے اندرونی انتشار سے فائدہ اٹھایا۔ اُن کے مطابق 800 سے زائد قیدی بیرکس سے باہر آ گئے تھے۔

ضیاء لنجار نے واضح کیا کہ فرار قیدیوں کے گھروں پر چھاپے مارے جا رہے ہیں اور انہیں جلد دوبارہ گرفتار کر لیا جائے گا۔

وزیر جیل خانہ جات علی حسن زرداری نے بھی واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے آئی جی اور ڈی آئی جی جیل سے مکمل رپورٹ طلب کر لی ہے۔ پولیس، ایف سی، رینجرز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ملیر جیل اور اطراف کے علاقوں میں سرچ آپریشن شروع کر رکھا ہے، جبکہ بعض علاقوں میں ریسکیو آپریشن بھی جاری ہے۔

دوسری جانب زلزلے کے حوالے سے محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ کراچی میں گزشتہ رات 12 بج کر 53 منٹ پر بھی 3 شدت کا زلزلہ ریکارڈ کیا گیا۔ جس کا مرکز ڈی ایچ اے کے مشرق میں تیس کلومیٹر دور تھا۔ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کراچی میں دسویں بار زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے ہیں۔ محکمہ موسمیات کے مطابق آئندہ دو روز تک مزید جھٹکے آنے کا امکان ہے تاہم کسی بڑے نقصان کا خدشہ نہیں۔

ملیر جیل کے اندر اور اطراف سیکیورٹی ہائی الرٹ

ملیر جیل سے قیدیوں کے فرار کے بعد صورتحال تاحال کشیدہ ہے، جیل کے اندر اور باہر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔ ایف سی، ایس ایس یو، رینجرز اور پولیس کی بھاری نفری کو جیل کے اطراف تعینات کر دیا گیا ہے، جبکہ جیل حکام نے قیدیوں سے اہل خانہ کی ملاقات پر بھی آج مکمل پابندی لگا دی ہے۔

جیل حکام کے مطابق آج کسی بھی قیدی کو اس کے گھر والوں سے ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی، جس پر جیل کے باہر ملاقاتیوں کا رش لگ گیا، کئی افراد اپنے پیاروں سے ملنے کی امید لیے جیل کے باہر پریشان کھڑے نظر آئے۔

حکام کے مطابق 80 سے زائد قیدیوں کو گرفتار کر لیا گیا، 138 مفرور قیدیوں کی تلاش جاری ہے، کمشنر اور ایڈیشنل آئی جی پر مشتمل تحقیقاتی کمیٹی نے کام شروع کر دیا۔

Similar Posts