کومت نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی ترسیلات زر کو باضابطہ چینلز کے ذریعے ملک میں لانے کے لیے قائم اہم اسکیم ”پاکستان ریمٹینس انیشی ایٹو (پی آر آئی)“ کا ازسرنو جائزہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ فیصلہ اس وقت کیا گیا جب یہ مشاہدہ ہوا کہ گزشتہ 10 برسوں میں ترسیلات زر تقریباً دو گنا بڑھیں، جبکہ اس اسکیم کے تحت کی جانے والی ادائیگیاں چار گنا سے زائد ہو چکی ہیں۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و ریونیو کے اجلاس میں ایڈیشنل سیکرٹری خزانہ امجد محمود نے بتایا کہ وزارتِ خزانہ نے اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کو اس اسکیم کے جائزے کی تجویز پیش کی تھی جسے ای سی سی نے منظور کر لیا۔ بعدازاں کابینہ نے بھی اسکیم کے مکمل جائزے کی ہدایت جاری کر دی ہے۔
کمیٹی کے چیئرمین سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت اجلاس میں ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر عنایت حسین نے اسکیم میں وقتاً فوقتاً کی جانے والی پالیسی تبدیلیوں، نرخوں اور ان کے مالی اثرات پر تفصیلی بریفنگ دی۔
سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ اس اسکیم کا جائزہ لینا ناگزیر ہو چکا ہے کیونکہ ادائیگیوں میں اضافہ ترسیلات زر کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہو چکا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دس سال پہلے سالانہ ترسیلات تقریباً 19 ارب ڈالر تھیں جو اب بڑھ کر 36 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئی ہیں۔ تاہم اس اسکیم کے تحت ادائیگیاں 20 ارب روپے سے بڑھ کر 130 ارب روپے تک جا پہنچی ہیں۔
ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ یہ اسکیم باضابطہ ذرائع سے ترسیلات زر کو لانے میں نہایت اہم رہی ہے۔ اسکیم کے تحت فی لین دین کی اہل رقم کی حد 100 ڈالر سے بڑھا کر 200 ڈالر کر دی گئی ہے۔
کمیٹی کو بتایا گیا کہ یہ اسکیم 2009 سے فعال ہے اور اس کا مقصد ہنڈی و حوالہ جیسے غیر رسمی ذرائع کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے ترسیلات زر کو بینکنگ نظام کے ذریعے لانا ہے۔ 2009 میں اس اسکیم سے منسلک مالیاتی اداروں کی تعداد 25 تھی جو 2024 تک بڑھ کر 50 سے زائد ہو گئی ہے۔ ان اداروں میں روایتی و اسلامی بینک، مائیکروفنانس بینک اور ایکسچینج کمپنیاں شامل ہیں۔
اس کے علاوہ الیکٹرانک منی انسٹی ٹیوشنز (EMIs) کو بھی بینکوں کے ذریعے ترسیلات وصول کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ 2009 میں عالمی اداروں کی تعداد 45 تھی جو اب 400 سے تجاوز کر چکی ہے۔ صرف مالی سال 2024 میں 33 نئے بین الاقوامی ادارے پاکستانی مالیاتی اداروں کے ساتھ اس اسکیم کے ذریعے منسلک ہوئے ہیں۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق 2009 میں 7.8 ارب ڈالر کی ترسیلات زر پاکستان آئی تھیں جو مالی سال 2024 تک بڑھ کر 30.3 ارب ڈالر ہو گئیں۔ پچھلے ایک دہائی میں ترسیلات میں 65 فیصد اضافہ ہوا ہے جو پاکستانی معیشت کے لیے ان کی بڑھتی ہوئی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔
اجلاس میں مقامی کرنسی میں سیٹلمنٹ کے نفاذ میں تاخیر پر بھی گفتگو ہوئی۔ چیئرمین کمیٹی نے نشاندہی کی کہ کمرشل بینکز ویزا اور ماسٹر کارڈ کے ڈیبٹ کارڈ جاری کرتے ہیں جو سالانہ پاکستان سے 300 ملین ڈالر کماتے ہیں، مگر صارفین کو مقامی ادائیگی اسکیم ”پے پاک“ کا کوئی آپشن نہیں دیتے۔ کمیٹی نے تجویز دی کہ جب بینک صارف کو ڈیبٹ کارڈ جاری کریں تو فارم پر پے پاک کا آپشن لازمی دیا جائے۔
کمیٹی کو بتایا گیا کہ مارچ 2025 تک پاکستان میں جاری 5 کروڑ 30 لاکھ ڈیبٹ و کریڈٹ کارڈز میں سے صرف ایک کروڑ پے پاک جبکہ 25 لاکھ کو-بیجڈ ہیں، باقی ویزا اور ماسٹر کارڈ کے کارڈز ہیں۔
اسٹیٹ بینک نے کمیٹی کو تحریری طور پر آگاہ کیا کہ ویزا، ماسٹر کارڈ اور یونین پے جیسے ادارے بین الاقوامی ادائیگی نظام چلاتے ہیں جن کا عالمی سطح پر وسیع نیٹ ورک ہے اور وہ آن لائن اور دکانوں پر ادائیگی کی سہولت فراہم کرتے ہیں۔ تاہم اسٹیٹ بینک نے ملک میں ان پر انحصار کم کرنے اور مقامی کرنسی پر مبنی سستے ادائیگی نظام کو فروغ دینے کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں۔
اسٹیٹ بینک نے مزید کہا کہ کو-بیجنگ اسکیمز پر بھی کام جاری ہے جس کے تحت مقامی کارڈز کو بین الاقوامی اور ای-کامرس لین دین کے لیے استعمال کیا جا سکے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ بینکوں اور ادائیگی نیٹ ورکس کے درمیان دو طرفہ تجارتی معاہدوں کے ذریعے ویزا و ماسٹر کارڈ کے نرخوں کا تعین کیا جاتا ہے، لیکن اسٹیٹ بینک نگرانی اور پالیسی رہنمائی کے ذریعے مسابقت کو فروغ دے رہا ہے تاکہ ڈیجیٹل مالی خدمات کی لاگت کم ہو۔
بین الاقوامی ادائیگی نیٹ ورکس کی بالادستی اب بھی برقرار ہے جس کی وجوہات میں ان کی مضبوط ساکھ، عالمی اعتماد، بین الاقوامی لین دین کی سہولت، بینکوں کو دیے جانے والے مالی مراعات، اور صارفین کے لیے خصوصی رعایتیں شامل ہیں۔