عالمی خبررساں ادارے کے مطابق یہ بات انھوں نے ٹائم میگزین کو 15 اکتوبر کو دیئے گئے ایک تفصیلی انٹرویو میں کہی۔
صدر ٹرمپ نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات مثبت سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں اور انہیں یقین ہے کہ سعودی عرب اس عمل کی قیادت کرے گا۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے مزید کہا کہ میرے خیال میں ہم معاہدے کے بہت قریب ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ سعودی عرب اس راستے کی قیادت کرے گا۔ پہلے غزہ کا مسئلہ تھا اور ایران کا مسئلہ تھا اب وہ دونوں مسائل نہیں رہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا سعودی عرب رواں سال کے اختتام تک ابراہیم معاہدوں میں شامل ہو جائے گا، تو ٹرمپ نے جواب دیا کہ ہاں، میرا یہی خیال ہے۔ ہاں، وہ ضرور شامل ہوں گے۔
صدر ٹرمپ نے یہ بھی انکشاف کیا کہ وہ غزہ پٹی کا دورہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تاہم کوئی تاریخ نہیں بتائی۔
فلسطینی قیادت سے متعلق سوال پر ٹرمپ نے کہا کہ اس وقت فلسطینیوں کے پاس کوئی واضح قیادت نہیں ہے۔ ان کے بقول فی الحال ان کے پاس کوئی نظر آنے والا رہنما نہیں ہے۔
دراصل وہ کسی کو سامنے نہیں لانا چاہتے کیونکہ جو بھی آگے آیا، اسے مار دیا گیا۔ یہ ایک خطرناک عہدہ ہے۔
صدر ٹرمپ نے فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کے بارے میں کہا کہ وہ انہیں ماضی میں ایک “معقول شخص” سمجھتے تھے لیکن اب شاید ایسا نہیں ہے۔
انھوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ آیا وہ غزہ میں فلسطینی اتھارٹی کی قیادت محمود عباس کے حوالے کرنے کی حمایت کرتے ہیں یا نہیں۔
انٹرویو میں ٹرمپ نے یہ بھی بتایا کہ وہ اسرائیلی جیل میں قید فلسطینی رہنما مروان برغوثی کے معاملے پر غور کر رہے ہیں۔
ان کے بقول جب آپ نے فون کیا، اس سے تقریباً 15 منٹ پہلے مجھے یہی سوال پوچھا گیا تھا۔ یہ میرے آج کے دن کا سوال تھا۔ میں جلد اس پر فیصلہ کروں گا۔