آئن سٹائن کا کزن، جس کی دشمنی نے ہٹلر کو جلاد سے بھی بدتر بنا دیا

0 minutes, 0 seconds Read

یہ 3 اگست 1944 کی صبح تھی، جب اٹلی کے شہر فلورنس کے قریب ایک پُراسرار مگر حسین وادی میں واقع ولا ”اِل فوکارڈو“ کی خاموشی اچانک تیز قدموں اور دروازے کے دھماکے سے چکناچور ہو گئی۔

دروازہ نہ کھٹکھٹایا گیا، نہ گھنٹی بجی۔ جرمن نازی فوجی سیدھے اندر گھسے۔ ان کے ہدف تھے رابرٹ آئن سٹائن — مشہور سائنسدان البرٹ آئن سٹائن کے قریبی کزن۔

رابرٹ اور البرٹ نے بچپن ایک ہی چھت کے نیچے گزارا تھا۔ وہ نہ صرف کزن بلکہ بھائیوں جیسے تھے۔ ان کے والدین کا بجلی کا کاروبار تھا، اور دونوں خاندانوں نے ایک ساتھ کامیابیاں اور ناکامیاں دیکھی تھیں۔

مگر یہ کہانی محبت، رشتے یا سائنس کی نہیں — بلکہ انتقام، وحشت اور انسانیت کے خلاف جرم کی ہے۔

فسطائیت کا اندھیرا

جب نازی جرمنی نے اٹلی میں قبضہ جمایا تو البرٹ آئن سٹائن کے کزن رابرٹ آئن سٹائن جو کہ ایک یہودی تھے، اپنے خاندان کے ساتھ ایک پر سکون گاؤں میں چھپے ہوئے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ جنگ کی دہشت ان تک نہیں پہنچے گی۔

 رابرٹ آئن سٹائن اور اُن کا خاندان ولا ”اِل فوکارڈو“ (فلورنس کے نواح میں) میں۔ تصویر بشکریہ: آنا ماریا بولدرینی
رابرٹ آئن سٹائن اور اُن کا خاندان ولا ”اِل فوکارڈو“ (فلورنس کے نواح میں) میں۔ تصویر بشکریہ: آنا ماریا بولدرینی

مگر وہ نہیں جانتے تھے کہ ہٹلر کی یہودیوں کیلئے نفرت اتنی گہری ہے کہ وہ البرٹ آئن سٹائن کے دور کے رشتے دار تک کو نشانہ بنائے گا۔

نازیوں کی آمد — موت کا قاصد

جرمن فوجی صبح سویرے ولا پر ٹوٹ پڑے۔ ان کا لیڈر ایک سرد مہر افسر تھا — آنکھوں پر دھاتی فریم کا چشمہ، کمزور چہرہ، مگر نیت میں سفاکی۔

”کہاں ہے آئن سٹائن کا کزن؟“ اس نے چیخ کر پوچھا۔

نینا، رابرٹ کی بیوی، نے چپ سادھ لی۔ کوئی کچھ نہ بولا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ سات خواتین کو تہہ خانے میں قید کر دیا گیا۔ اوپر گھر میں قہقہے گونجتے رہے، بوتلیں کھلیں، اور ظالم فوجی ولا میں عیش کرتے رہے — جیسے کہ یہ ان کا شکارگاہ ہو۔

آخری چیخ، آخری سانس

جب نازیوں کو یقین ہو گیا کہ رابرٹ چھپ گیا ہے، تو انہوں نے اپنا انتقام اس کی بیوی اور بیٹیوں پر منتقل کیا۔ نینا، لوچے اور سیچی — تینوں کو بے دردی سے گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا، اور ولا کو آگ لگا دی گئی۔

رابرٹ، جو قریبی جنگل میں چھپا ہوا تھا، اس نے جب گولیوں کی آواز سنی، تو دیوانہ وار بھاگا۔ مگر دیر ہو چکی تھی۔ اس کے سامنے اس کی دنیا راکھ بن چکی تھی۔

 البرٹ کی بیوی نینا اپنی بیٹیوں لوچے اور سیچی کے ساتھ۔ تصاویر بشکریہ: آنا ماریا بولدرینی
البرٹ کی بیوی نینا اپنی بیٹیوں لوچے اور سیچی کے ساتھ۔ تصاویر بشکریہ: آنا ماریا بولدرینی

آزادی اور ادھورا انتقام

اگلی صبح اتحادی فوجیں فلورنس میں داخل ہو گئیں۔ شہر آزاد ہو گیا۔ مگر رابرٹ کے لیے سب کچھ ختم ہو چکا تھا۔

چھ ہفتے بعد، امریکہ میں مقیم البرٹ آئن سٹائن کو خبر ملی کہ نازیوں نے اُس کے خاندان کو نشانہ بنایا — محض اس لیے کہ وہ اُس کا رشتہ دار تھا۔

 البرٹ آئن سٹائن کو نینا اور ان کی بیٹیوں کی موت کی اطلاع دینے والا خط۔ تصویر: ہیبرو یونیورسٹی آف یروشلم، اسرائیل۔ ڈیجیٹل تصویر: آردون بار ہاما
البرٹ آئن سٹائن کو نینا اور ان کی بیٹیوں کی موت کی اطلاع دینے والا خط۔ تصویر: ہیبرو یونیورسٹی آف یروشلم، اسرائیل۔ ڈیجیٹل تصویر: آردون بار ہاما

ایک سال بعد، دکھ، پچھتاوے اور جرم کے بوجھ تلے دبے رابرٹ آئن سٹائن نے نیند کی گولیاں کھا کر اپنی زندگی کا بھی خاتمہ کر لیا۔

عبرت کی داستان

رابرٹ کی بھانجی، انا ماریا، جو آج بھی زندہ ہے، اُس دن کو یاد کرتی ہے تو کانپ جاتی ہے۔ اُس کا کہنا ہے کہ یہ قتل ایک منظم وینڈیٹا (انتقام) تھا — البرٹ آئن سٹائن کے خلاف نفرت کا نتیجہ، جس نے اُس کے خاندان کی زندگیاں نگل لیں۔

 رابرٹ آئن سٹائن۔ تصویر: اِل نووو کورئیری
رابرٹ آئن سٹائن۔ تصویر: اِل نووو کورئیری

یہ کہانی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ جنگ صرف محاذ پر نہیں لڑی جاتی — وہ انسانوں کے گھروں میں، دلوں میں، اور خاندانوں میں زخم چھوڑ جاتی ہے، جو کبھی نہیں بھرتے۔

Similar Posts