ورلڈ بینک کے صدر اجے بنگا اور انڈس واٹر ٹریٹی ، ایک روحانی اور سیاسی آزمائش

0 minutes, 0 seconds Read

عالمی بینک کے موجودہ صدر اجے بنگا، جو سکھ مذہب سے تعلق رکھتے ہیں، اس وقت ایک گہرے روحانی اور سیاسی چیلنج کا سامنا کر رہے ہیں۔

ان کے سامنے سوال یہ ہے: کیا وہ بھارت کی مودی حکومت کے ساتھ کھڑے ہوں گے یا سکھ مت کے اصولوں کے مطابق پنجاب کے کسانوں اور دریاؤں کے تحفظ کو ترجیح دیں گے؟

امریکہ اور برطانیہ کے درمیان بڑا تجارتی معاہدہ، امریکی صدر کا اہم اعلان

سندھ طاس معاہدہ، جو برصغیر کے پانی کی تقسیم کا ضامن ہے، ایک بار پھر تنقید کی زد میں ہے۔ بھارت کی جانب سے ممکنہ طور پر اس معاہدے کی خلاف ورزی کے خدشات نے سکھ برادری میں بے چینی پیدا کر دی ہے۔

سکھ قوم، جن کے عقائد میں پانی نہ صرف ایک قدرتی وسیلہ بلکہ روحانی اہمیت کا حامل ہے، اب عالمی بینک کے صدر سے امید لگائے بیٹھی ہے۔

اجے بنگا کی یہ وضاحت کہ ”ورلڈ بینک صرف ثالث کا کردار ادا کرتا ہے“ کئی حلقوں کے لیے تشویش کا باعث بنی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ایک سکھ رہنما ہونے کے ناطے، ان پر یہ اخلاقی ذمے داری بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ پنجاب کے پانی کے تحفظ میں فعال کردار ادا کریں، نہ کہ سفارتی پیچیدگیوں کا سہارا لے کر خاموش تماشائی بنے رہیں۔

پانی، جسے گرو گرنتھ صاحب میں ”حیات دا مالک“ قرار دیا گیا ہے، سکھ مذہب میں محض ایک مادی وسیلہ نہیں بلکہ ایک روحانی نعمت ہے۔

پنجہ صاحب جیسے مقدس مقامات، جہاں پانی کو گرو کی کرامت سے جوڑا جاتا ہے، آج پانی کی قلت کے خطرے سے دوچار ہو سکتے ہیں۔

سوال یہ بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ اگر بنگا مودی حکومت کے دباؤ میں آ کر سندھ طاس معاہدے کی غیرجانبدارانہ نگرانی سے پیچھے ہٹتے ہیں تو کیا وہ سکھ قوم کے اعتماد پر پورا اُتر سکیں گے؟ یا پھر وہ بھی اپنے پیشروؤں کی طرح خاموش رہ کر سفارتی بیانات تک محدود رہیں گے؟

سکھ برادری کے حلقوں میں یہ بحث شدت اختیار کر چکی ہے کہ اجے بنگا کا عالمی بینک کے صدر کے طور پر کردار، ایک الہامی امتحان بن چکا ہے۔ یہ محض ایک تکنیکی یا انتظامی فیصلہ نہیں بلکہ سکھ مت کی روح، گرو نانک کی تعلیمات، پنجاب کے کسانوں اور بھارت کی سیاسی ترجیحات کے درمیان ایک کڑا توازن ہے۔

اگر اجے بنگا نے گرو نانک کی دھرتی کے خلاف کوئی فیصلہ کیا تو سکھ قوم اسے صرف ایک ادارتی پالیسی نہیں بلکہ روحانی بے وفائی تصور کرے گی۔ اس وقت پوری دنیا کی نظریں اجے بنگا پر ہیں، اور تاریخ ان سے یہ سوال ضرور پوچھے گی:

”کیا آپ نے مودی کے کنول کو سیراب کیا یا گرو کے دریاؤں کو بچایا؟“

Similar Posts